Archive for جنوری 8th, 2010

Articles

بچوں کا ٹی وی چینل اور ایو ایس ایڈ کی سرمایہ کاری

In پاکستان on جنوری 8, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

ذ۔ر۔جعفری

کیا 18کروڑ پاکستانی مل کر ایک ارب 68کروڑ روپے جمع کرسکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ہم اپنی ذات سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ارب 68 کروڑ روپے کا ہوگا کیا؟ امریکا کے کھلے اور چھپے ناپاک مکروہ عزائم پورے کرنے میں معاون اس کا ادارہ یو ایس ایڈ جو پاکستان میں 1955ءسے سرگرم ہے، اس نے پاکستانی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا ہے۔ اس اشتہار کے مطابق یو ایس ایڈ نے ایسے تمام پاکستانی اور امریکی اداروں سے منصوبے اور تجاویز طلب کیے ہیں جو بچوں کے پروگرام بناسکتے ہیں اور یو ایس ایڈ کو پاکستانی بچوں کے لئے ایک ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے یو ایس ایڈ ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے لے کر 2کروڑ ڈالر تک کا سرمایہ فراہم کرے گا۔ یعنی تقریباً ایک ارب 68کروڑ پاکستانی روپے۔
عقل حیران ہے کہ یہاں بڑے بڑے اعلیٰ ذہن اور وژن رکھنے والے لوگ پورے 18کروڑ عوام کی رہنمائی کیلئے ایک نیوز چینل قائم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے لئے 5سے 10کروڑ روپے نکالنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت ببانگِ دہل صرف پاکستانی بچوں کیلئے ایک ارب 68کروڑ روپے سے ٹی وی چینل قائم کررہی ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ پینٹاگون کے پاس اربوں ڈالر کا بجٹ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اسلامی ممالک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مسلمان عوام کا ذہنی غسل کیا جائے اور رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ آپ کو کیا دکھانا ہے، کیسے دکھاناہے، کیاسوچنے پر مجبورکرناہے، کس طرح کی رائے قائم کراناہے اور کس طرح کا کردار اداکروانا ہے یہ وہ تمام مقاصد ہیں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مددسے حاصل کئے جارہے ہیں۔
امریکی ٹکڑوں یامشروبات پر پلنے والے نام نہاد کالم نویس اور دانشور صبح تا شام پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے صرف اسلام اور دہشت گردی کا تعلق ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کوتمام مسائل کی جڑ اسلام اور لوگوں کا اسلام سے تعلق نظر آتاہے۔ طالبان کے نام پر دہشت گردی کے ہرطرح کے واقعات رونماہورہے ہیں اور ہر واقعے کے بعد لوگوں کے لاشعور میں متواتر ٹی وی مذاکروں کے ذریعے صرف ایک ہی بات بٹھائی جاتی ہے کہ یہ اسلام کے نام لیواﺅں کی کارروائی ہے اوریہ کہ ہمیں ان سے اپنے تعلق کو مکمل ختم کرناہوگا، یعنی ہر اُ س شخص سے جونمازپڑھتا، داڑھی رکھتا یا خلافِ اسلام رویّوں کو رد کرتا یا پھر امریکا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بات کرتا یا اس کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی مذّمت کرتاہے۔
راقم نے یہ بات خاص طورپر نوٹ کی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ہر اس شخص یا تنظیم کو طالبان یادہشت گردوں کا ہمدرد، ساتھی اور معاون قراردیاجاتاہے جو پاکستان میں امریکی مداخلت یا افغانستان میں ہزاروں بے گناہوں کی شہادت کی بات کرتاہے اور ناپاک امریکی عزائم کو موضوعِ بحث بناتاہے۔
جماعتِ اسلامی کے نئے امیر سید منور حسن اس بات کے گواہ اور شاہد ہیں کہ کس طرح پاکستانی میڈیا نے ان کے امیر بننے کے بعد ان کے متواتر انٹریوز شائع اور نشر کیے اور ہر انٹرویو میں ان کو مخصوص سوالات کے ذریعے گھیرنے کی کوششیں کی گئیںاور انٹرویوز کرنے والے سننے اور دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتے رہے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذّمت نہیں کرتی ہے بلکہ ملک میں طالبان کے نام سے دہشت گردی کی کاروائیوں کی ہمدردہے اور امریکا کی بلاوجہ مخالفت کرتی ہے۔ یو ایس ایڈفنڈڈ ایک چینل جس کا سی ای اوبھی یو ایس ایڈکا باقاعدہ ملازم ہواکرتاتھا اس کے ایک سینئراینکرجوکسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے کارکن اور کیپیٹل ازم اور امریکاکے بہت بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے انہوں نے امیر جماعتِ اسلامی سے انٹریو میں اس حدتک اشتعال انگیز سوالات کئے کہ منورحسن کو کہنا پڑا کہ "یہ آپ امریکی ذہن سے سوچ رہے ہیں اور امریکی سوالات پوچھ رہے ہیں”۔ منورحسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جس چینل کو خاص طورپر امریکی امداد کے ذریعے بنایاگیاہے اور جہاں ان تمام لوگوں کونوکری فراہم کی جاتی ہے جو اسلام یا اس کے نام لیواﺅں سے بیزاری رکھتے اور مغرب سے اپنا ناتا جوڑے ہوئے ہوں ۔ توکیا ایسے ٹیلی ویژن امریکی اور مغربی سوچ کی نمائندگی نہیں کریں گے؟
جویو ایس ایڈصرف بچوں کے چینل کےلئے ایک ارب 68کروڑ روپے فراہم کر رہی ہے اس نے 18کروڑ جیتے جاگتے باشعور پاکستانیوں کی ذہن سازی کیلئے اگر 100ارب بھی خرچ کئے ہیں تو یہ تھوڑے ہیں۔ اسی چینل پر اکثروبیشتر مذاکرے نشر ہوتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے لاشعور یہ بات بٹھانا ہے کہ اچھے لوگ صرف وہ ہیں جو صبح کام پر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ اور ملک کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر زبان سے ایک حرف نہیں نکالتے۔ یہ اچھے لوگ نہ صرف کہ اسلام سے واجبی ساتعلق رکھتے ہیں بلکہ اسلامی کے نام لینے والوں یا ملک کی اسلامی اساس پر ضرب لگانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں یا احتجاج کرنے والوں سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ کیونکہ یہ لوگ شلوار قمیض پہنتے، نماز پڑھتے اور داڑھی رکھتے ہیں اور مغرب خاص طورپر امریکا کی جانب سے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جانے پر احتجاج کرتے اور کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں لہٰذا ان میں اور طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے لوگوں کا نہ صرف کہ ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔
ایم کیوایم کی جانب سے بھی میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اور اب اکثر ایسی دینی سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جاتی ہے جو ملک میں دہشت گردی کا ذمہ دار مغرب اور امریکا کو ٹھراتے ہیں۔ یہ تمام چینل کی امریکی یا مغرب مخالف خبر کو چند سیکنڈدیتے ہیں۔ لیکن اسلام کا دہشت گردی سے تعلق جوڑ نے میں ان کا بیشتر وقت گزر جاتا ہے۔
یو ایس ایڈکی جانب سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری نہ صرف کہ پاکستانی معاشرے میں رنگ لارہی ہے بلکہ وہ دن زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا جب اسلام کا نام لینا ایک جرم قرار پائے گا اور عوام میڈیا کے مستقل پراپیگنڈے کے زیرِ اثر پاکستانی عوام سے بات کرنابھی ناممکن ہوجائے گا۔ ابھی پاکستانی عوام کی مستقل طورپر دینی جماعتوں، مدرسوں اور علما کے خلاف ذہن سازی کی جارہی ہے تاکہ وہ ان کو معاشرے کا ناسور سمجھنا شروع ہوجائیں اور دوسرے مرحلے میں عوام اور سرکاری اداروں کو میڈیا کے پراپیگنڈے کے ذریعے اسلام کا نام لینے والی جماعتوں اور مدرسوں کے خلاف کاروائیوں پر اکسایاجائے گا۔ یو ایس ایڈکے فنڈڈ اسی چینل سے چند روز پہلے ڈاکٹر ہود بھا ئے اور ظفر خان مدرسوں اور اسلامی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اور مدرسوں کو دہشت گردی کی نرسریاں قراردیاجارہاتھا۔ یہاں تک کہاگیا کہ یہ مدرسے ہی دراصل اسلامی سیاسی جماعتوں اور دہشت گردوں کے مشترکہ طاقت کے مراکز ہیں اور اگرپاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ان مدرسوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
اگر ملک کے تمام علمائ، مدارس، دینی جماعتیں اور دینی سیاسی جماعتیں ایک ایسے پاکستان کے لیے تیار ہیں جہاں پر صرف اور صرف مغرب کا راج ہوگا اور جبرکے ذریعے اسلامی شعائر کی پابندی سے روکاجائے گا تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں مگر اگر ہم پاکستان اور اسلام کے تعلق کو سمجھتے ہیں اور واقعتا اسلام اور اللہ سے وابستگی رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں مغرب کی یلغار خاص طورپر میڈیا کی یلغار سے کس طرح نمٹناہے۔
اس ملک میں جہاں لوگ دوسروں کی مدد کی خاطر سالانہ سور ارب سے زائد صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور جہاں ایک سچے پاکستانی کی اپیل پرکینسر جیسے ہسپتال کو تعمیر اور کامیابی سے چلنا ممکن بناسکتے ہیں وہاں مغرب کے فنڈڈ چینل اور اخبارات کے مقابلے کیلئے 10 ،20یا 30کروڑ روپے جمع نہیں کئے جاسکتے؟ بات صرف اس کام کی اہمیت کو سمجھنے اور عزم کی ہے۔
یہاں ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جس کاا پنا نیوز چینل، انگریزی اور اردو کا اخبار ،پبلشنگ ہاﺅس اور لکھنے والوں کی ایک معقول تعداد ہو جوکہ نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی میں شائع ہونے والے اسلام مخالف سینکڑوں مضامین کو چیلنج کریں اور ان کے خلاف دلائل کے ساتھ تحریریں لکھیں اور ان تمام اخبارات، رسائل اور چینلز کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرےں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر ان کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کیاجائے۔
مغرب کے خلاف اردوزبان میں بہت سا ایسامواد موجود ہے جس کو انگریزی میں ترجمہ کرکے انٹرنیٹ کے ذریعے اور کتابوں اور رسائل کی شکل میں پاکستان میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے بلکہ مغرب اور دنیابھر میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی بتانا ضروری ہے۔ اس وقت پوری دنیا کا میڈیا یہودیوں اور اسلام دشمنوں کے ہاتھ میں ہے ایسے میں یہ سمجھنا کم فہمی ہے کہ ہم لوگوں کو مغرب کے ناپاک عزائم سے صرف بیانات اور احتجاجی مظاہروں سے آگاہ کر کے ان کی رائے کو مغرب کے ناپاک عزائم کے خلاف ہموار کرلیں گے۔

بشکریہ :فرائیڈے اسپیشل ، کراچی

Articles

پاکستان کے ابلاغی اغوا کا امریکی منصوبہ

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 8, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

:شاہنواز فاروقی

ہماری قومی زندگی میں امریکہ کہاں نہیں ہے! ہماری حکومتیں امریکہ تخلیق کرتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے چہروں پر امریکی ساختہ لکھا ہوا ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں امریکہ کی سیاسی موسیقی پر رقص کرتی ہیں۔ ہمارے دفاع پر امریکہ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے قلب میں امریکی پرچم لہرا رہا ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کے مالیاتی اداروں کے احکامات پر چلتی ہے۔ ہماری داخلہ پالیسی امریکی ترجیحات کے مطابق مرتب ہوتی ہے۔ ہمارے جرنیل اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکی ماہرین ہمارا قومی بجٹ بناتے ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں ہمارے تعلیمی نصاب کا بڑا حصہ مشرف بہ امریکہ ہوچکا ہے۔ ہمارے بہت سے دینی مدارس میں امریکہ کی اصلاحات تاریکی پھیلا رہی ہیں۔ آغا خان بورڈ پر بہت سے لوگوں کو امریکہ کا سایہ نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان پر امریکہ کی مکمل گرفت کا منظرنامہ ہے، مگر امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُس نے پاکستان کے ”ابلاغی اغوا“ کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس منصوبے کا ایک پہلو پاکستان پر امریکی چینلوں کی یلغار ہے۔ پاکستان میں سی این این، فوکس نیوز اور سی این بی سی پہلے ہی موجود تھے مگر پاکستان میں امریکی چینلوں کا اردو روپ بھی ظاہر ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں مواد کی اشاعت و پیشکش پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے معاملے سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے۔ اس معاملے کا لب ِلباب یہ ہے کہ شیریں مزاری نے پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں بلیک واٹر کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، مگر امریکی سفارت کاروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے یہ مضمون شائع ہونے سے رکوا دیا، تاہم جب شیریں مزاری کا یہ مضمون انٹرنیٹ کے ایک بلاگ پر طلوع ہوگیا تو مذکورہ اخبار نے بھی اسے شائع کردیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی ہمارے ابلاغی اغوا کے لیے کس سطح پر اتر کر کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملات یہیں تک محدود نہیں۔
دی نیوز کراچی کی 24 دسمبر کی اشاعت میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں یو ایس ایڈ نے پاکستان میں بچوںکے ٹیلی وژن پروگرام کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ اشتہار کے مطابق ان پروگراموں کا عرصہ چار سال پر محیط ہوگا اور اس پر امریکہ ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو امریکہ پاکستان میں بچوں کے ٹی وی پروگراموں کی تیاری پر تقریباً ایک ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت بچوں کے لیے مقامی امریکی ٹی وی چینل شروع ہوگا یا محض بچوںکے لیے پروگرام تیار کیے جائیں گے؟ یہ امر اشتہار سے پوری طرح واضح نہیں، لیکن اشتہار میں منصوبے کے تین مقاصد واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اشتہار میں منصوبے کا پہلا مقصد بچوں کو زبان کی تشکیل میں مدد دینا، دوسرا مقصد بچوں میں مسائل حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ منصوبے کا تیسرا مقصد بچوں میں ”تنقیدی فکر“ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
منصوبے کے یہ تینوں مقاصد بظاہر سیدھے سادے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ کیا جائے تو اصل حقیقت تک رسائی ہوجاتی ہے۔ زبان بیرونی دنیا سے بچے کے تعلق اور رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ بچے زبان کے وسیلے ہی سے دنیا کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ جیسی ان کی زبان ہوگی ویسی ہی ان کی دنیا بھی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر زبان کا ”ماڈل“ بھی امریکی ہوگا تو بچوں کا زاویہ ¿ نگاہ ابتدا ہی سے ”امریکی“ ہوجائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ زبان کے ذریعے ذہن اور تصور کی ”امریکہ کاری“ ہے۔ زبان ”تعمیر“ کا ذریعہ ہے۔ ”تخلیق“ کا وسیلہ ہے۔ مگر امریکہ پاکستان میں اسے بھی ”تخریب“ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا اچھی بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مسائل کا ”تصور“ کیا پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کی ترجیحات کے حوالے سے مسائل کی ایک فہرست ”اسلامی“ ہے۔ ترجیحات کے اعتبار سے مسائل کی دوسری فہرست ”مغربی“ ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ امریکہ ہمارے بچوں کو مسائل کی اسلامی فہرست کے ذریعے تو تربیت دینے سے رہا۔
بچوں میں تنقیدی فکر کی صلاحیت پیدا کرنا بظاہر بڑی دانش ورانہ بات لگتی ہے، لیکن مغرب اسلام کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اُسے دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں میں تنقیدی فکر پیدا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی بچوں میں اسلامی عقائد و نظریات اور اسلامی تصورات و اقدار کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان پیدا کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہماری نئی نسل کے روحانی، تہذیبی، نفسیاتی و ذہنی اغوا کا منصوبہ ہے جو ہماری ہی سرزمین پر ہمارے ہی لوگوں کی مدد سے بروئے کار آنے والا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
ہمارے یہاں امریکی فکر اور امریکی اقدامات کے حوالے سے ”امریکی سازش“ کی اصطلاح مروج ہے۔ اس اصطلاح کے تحت ہم کہتے ہیں کہ امریکہ ہمارے خلاف فلاں سازش کررہا ہے۔ لیکن سازش ”خفیہ“ ہوتی ہے۔ امریکہ زیربحث اقدام کے حوالے سے جو کچھ کررہا ہے وہ سازش نہیں ہے، ”منصوبہ“ ہے۔ سازش خفیہ ہوتی ہے اور منصوبہ سرعام بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اور امریکہ نے تو اس منصوبے کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا ہے۔ اس سے امریکہ کے اس اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آخر یہ ہماری کیسی ”پاکستانیت“ ہے جو بھارت کے نیوز چینلز کو روکتی ہے مگر امریکہ کے کسی طرح کے چینلز پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
امریکہ کا زیر بحث منصوبہ چار سال پر محیط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے سلسلے میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کررہا ہے اور وہ ایک آدھ سال میں پاکستان سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کا مسئلہ ”اسلامی انتہا پسند“ ہیں۔ لیکن امریکہ کا مذکورہ منصوبہ اسلامی انتہا پسندوں سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ امریکہ ہمارے پورے معاشرے کی تشکیلِ نو چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بچوں تک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں پہلے ہی بچوں کے لیے مغربی چینلوں کی بھرمار ہے۔ ان میں کارٹون نیٹ ورک، ڈزنی، نکلوڈین اور بے بی ٹی وی سرفہرست ہیں۔ ان چینلوں کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں ان چینلوں نے لاکھوں بچوں کو ٹی وی کا قیدی اور ٹی وی کا مریض بنادیا ہے۔ مگر امریکہ کے لیے یہ کافی نہیں ہے، اور وہ ہمارے بچوں کے لیے مقامی ابلاغی قتل گاہیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جس طرح جیکب آباد اور پسنی کے ہوائی اڈوں پر امریکی قبضے کو قبول کرلیا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ابلاغی اغوا کے امریکی منصوبے کو بھی قبول کیے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے یہاں روسی ایجنٹ کی اصطلاح رائج تھی اور ان ایجنٹوں کی شناخت واضح تھی۔ بھارتی ایجنٹوں کی شناخت بھی ہمارے یہاں واضح رہی ہے۔ مگر امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کو تو ہم امریکی ایجنٹ تک کہنے اور ان کی شناخت متعین کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل ، کراچی