Articles

میجر جنرل طارق خان کا غیر ذ مہ دارانہ بیان

In پاکستان, حقوق انسانی on مارچ 3, 2010 by ابو سعد

بہت سارے نوجوانوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ فوج میں شمولیت اختیار کروں، پشاور میں ابتدائی مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد آئی ایس ایس بی کے لئے کوہاٹ پہنچا اور پورے چار دن وہاں گذارنے کے بعد ناٹ ریکمنڈڈ کا لیٹر ہاتھ میں آیا۔ شاید میں فوج میں بھرتی کے لیے اہل نہیں تھا یا پھر میں اتنا ڈسپلنڈ نہیں تھا کہ ملک دو لخت ہوتا اور میں اپنے جنرل کے حکم پر نوے ہزار دیگر سپاہیوں کی طرح بغیر ڈسپلن توڑے ہتھیار ڈال دیتا ۔
میرے بیج کے دو دوست منتخب ہوگئے تھے ‘ ہم دل جلے جلن کے مارے ان سے کہتے تھے کہ فوجی کا دماغ گھٹنے میں ہوتا ہے۔ فوجی دماغ سے نہیں گھٹنے سے سوچتا ہے۔ آج کے اخبارات میں آئی جی ایف سی میجر جنرل طارق خان کا بیان پڑھ کر احساس ہوا کہ واقعی ان کا دماغ سر میں نہیں گھٹنے میں ہوتا ہے۔ موصوف نے فرمایا جماعت اسلامی کے ہارون رشید کا گھر دہشت گردی کا مرکز تھا۔ میجر جنرل صاحب فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی ہیں۔ کاش پریس بریفنگ کے وقت موجود ہمارے اردو اسپکینگ بھائی میجر جنرل اطہر عباس ان کو سمجھاتے کہ بھئی بغیر کسی ثبوت کے ایک محب وطن سیاسی جماعت کے صوبائی نائب امیر پر اس طرح کا الزام لگانا کوئی عقل کی بات معلوم نہیں ہوتی۔
ثبوت بھی فوجی ثبوت نہیں ۔ لال مسجد کو فتح کرتے وقت بھی ثبوت دکھائے گئے تھے‘ لیکن اب سپریم کورٹ بھی فوجی آپریشن میں قتل ہونے والوں کو شہدائے لال مسجد پکارتی ہے ۔
یہاں آئی جی فرنٹیر کور میجر جنرل طارق خان کو یہ مشورہ بھی دیاجانا چاہیے کہ وہ باجوڑ اور قلعہ بالا حصار سے ذرا نکل کر دنیا میں دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔ وہ مغربی سرحد پر ڈالروں کی خاطر میراثی پرویز مشرف کی شروع کی گئی امریکی جنگ لڑ رہے ہیں تو ادھر وہی امریکا ‘بھارتی دشمنوں اور امریکا میں پاکستانی سفیر کی مدد سے فوج کا تعلق ’’مستقبل کی القاعدہ ‘‘ یعنی لشکر طیبہ کے ساتھ جوڑ کر اس پر وار کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ براہ کرم تھوڑا سا وقت نکال کر امریکی پالیسی ساز میگزین نیوز ویک کی یہ ٹائٹل اسٹوری بھی پڑھ ڈالیں ۔ وہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں امریکی جنگ کو جائز کہنے والے لندن اور واشنگٹن نکل لیں گے اور امریکی فوج آپ کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دے کر مشرقی سرحدوں سے حملہ آور ہوگی تو یہی لوگ آپ کے شانہ بشانہ ملکی سرحدوں کی حفاظت میں مصروف ہوں گے جن کو آج آپ کسی طریقے سے باجوڑ کے شدت پسندوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ اگر چہ امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد آُپ ہی کے چیف کی طرف سے ڈالروں کے عوض پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کے حوالے کرنے کے اعتراف کے بعد آپ کی حب الوطنی تو مشکوک کہلائی جاسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کی نہیں۔ مجھ سمیت اکثر پاکستانی اگر چہ دہشت گردی کے نام پر قبائلیوں کے خلاف امریکی جنگ کے مخالف ہیں لیکن وہ فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر اس طرح کے الزامات شدت پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے موقف کو مضبوط کر سکتے ہیں۔۔
جنرل کیانی صاحب نے اپنے پیشرو پرویز مشرف کی اکثر پالیسیوں کو ریورس کردیا ہے۔ ان کی جمہوریت پسندی اور حب الوطنی کے وجہ سے پرویز مشرف کا خراب کیا ہوا فوج کا برا تاثر بہتر ہونے لگا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میجر جنرل طارق خان پرویز مشرف کے خیال کے آدمی ہیں۔ پرویز مشرف پاکستان اور پاک فوج کا بدبودار اور گند ا ماضی ہے ۔ میجر جنرل صاحب کو اپنے ماضی کے اوراق کی تلاوت کے ذریعے جنرل کیانی صاحب کی کوششوں کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد فسادیو ں کے خلاف قومی لشکر کاحصہ نظر آتی ہے ان کو فسادیوں کی طرف دھکا نہ دیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرقی سرحد پر پاکستان کے خلاف دشمن متحد ہورہے ہیں پاکستان کو متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ تقسیم کرنے کی۔
امریکی جنگ کے خلاف آواز اُٹھانے والے اور اس کی خاطر اقتدار کی کرسی کو ٹھوکر مارنے والے نہایت ہی قابل احترام اور قابل فخر ہارون رشید صاحب کے موقف کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ شکریہ
منور حسن صاحب کا ردعمل یہاں ملاحظہ کریں۔

13 Responses to “میجر جنرل طارق خان کا غیر ذ مہ دارانہ بیان”

  1. آج دنيا صيہونيوں کی ہے ۔ جب تک اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے مسلمان نہيں بنتے تب تک مار کھاتے رہيں گے

  2. کافی لمبا لپیٹا مارا ہے آپ نے ۔

  3. ” بغیر کسی ثبوت کے ایک محب وطن سیاسی جماعت ”

    ایک "محب وطن” سیاسی جماعت ميں کالی بھيڑ بھی تو ہو سکتی ہيں؟

    ويسے جماعت اسلامی کو کوئی اور بھی محب وطن جماعت سمجھتا ہے جبکہ مودودی صاحب پاکستان کو ناپاکستان کہا کرتے تھے، علاوہ اور باتوں کے؟

  4. ریاض شاہد یہ لپیٹا وہی والا ہے نا جو ہم کہتے ہیں ہاں بھائی لپیٹو لپیٹو!
    🙂

  5. Jamal_Alam
    ——————————————————–
    جبکہ مودودی صاحب پاکستان کو ناپاکستان کہا کرتے تھے،
    ——————————————————————
    حوالہ؟ خدا خوفی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے ہمیں بہتان تراشی سے متعلق وعیدوں کا پتا نہیں ۔ ہمیں نہیں پتا کہ کسی پر بہتان لگانا کتنا بڑا جرم میں ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ مجھے انتظار رہے گا اس تحریر یا تقریر کے حوالے کا جس میں مولانا نے پاکستان کو ناپاکستان کہا ہے۔

    • يہ بات پہلے بھی کہی جاچکی ہے اور ابھی کل ہی سيد حيدر مودودی (مودودی کے صاحبزادے) نے بھی فرنٹ لائين ميں دوہرائي- ليکن ظاہر ہے ماننا آپکا کام نہيں-

  6. ہارون رشید پر فوج کی الزام تراشی(اداریہ روزنامہ جسارت 4مارچ 2008)
    امریکی اورصلیبی افواج عراق اور افغانستان کو فتح کرنے میں مصروف ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کو شہیدکرچکی ہیں۔ پاک فوج افغانستان پرقابض صلیبی افواج کی مدد کے لیے اپنے قبائلی علاقے فتح کررہی ہے اورگزشتہ منگل کو اسے ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی جب باجوڑ ایجنسی فتح کرلی گئی اور فوجی ترجمان کے مطابق 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ علاقہ میں قومی پرچم لہرادیاگیا۔ پاک فوج کی ان فتوحات کو امریکا نے جی بھرکر سراہا ہے اور اسی دن اعلان کیاہے کہ وہ پاکستان کو ایک ہزار جدید ترین لیزر گائیڈڈبم کٹ فراہم کرے گا جن کی مدد سے پاک فوج زیادہ موثر انداز میں جنگجوﺅں کے ٹھکانے تباہ کرسکے گی۔ امریکا 2005ءسے خود بھی پاکستانی علاقوں پر اندھا دھندڈرون حملے کررہاہے جن میں خود امریکی اعداد وشمارکے مطابق زیادہ تربے گناہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ تاہم اب یہی کام امریکا پاک فوج سے لے رہاہے۔ گزشتہ منگل کو ”عظیم فتح“ کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہرعباس اورانسپکٹرجنرل فرنٹیئرکور میجرجنرل طارق خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اوریہ حیرت انگیزالزام بھی عائدکیا کہ سابق رکن قومی اسمبلی اورجماعت اسلامی کے رہنما ہارون رشیددہشت گرد اور مفرورہیں‘ باجوڑمیں ان کا گھردہشت گردی کا مرکز تھا اس لیے اسے تباہ کردیاگیا۔ فوج کے ان ترجمانوں نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ ہارون رشید کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور وہ ”اشتہاری“ ہیں۔ یاد رہے کہ فوج نے جب ہارون رشید کا گھربارود لگاکر اڑایا تھا تو ملبہ تلے دب کر ان کی والدہ‘ بھتیجی اور ایک 3 سالہ بچہ شہید ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمانوں نے بڑی عجیب دلیل پیش کی ہے کہ اس وقت تو یہ خواتین ہارون رشید کے گھرمیں نہیں تھیں‘ ہوسکتاہے کہ دھماکے سے برابر کا گھربھی گرگیا ہو جس کے ملبہ تلے دب کر وہ ہلاک ہوگئی ہوں۔ ان خواتین اورایک بچے کی ہلاکت کو اتفاقی اور حادثاتی قراردینا امیرجماعت اسلامی پاکستان سیدمنورحسن کے بقول عذرگناہ بدترازگناہ کے مترادف ہے۔ فوج کے ماہرین سے زیادہ اورکون یہ بات جانتا ہوگا کہ کسی گھرکو اڑانے کے لیے جتنا باروداستعمال کیاجارہاہے اس کے اثرات کتنے وسیع ہوں گے اور کتنا علاقہ متاثرہوگا۔ یہ تو”معصومیت“ کی انتہا ہے کہ برابر کے گھرکا ملبہ گرنے سے ہلاکتیں ہوگئیں۔ یہ اطلاعات اخبارات میں آچکی ہیں کہ جب فوج کے جوان ہارون رشید کے حجرے میں بارودنصب کرکے جارہے تھے تو مقامی افراد نے ان سے درخواست کی تھی کہ خواتین کو نکلنے کا موقع دیاجائے لیکن ایسا نہیں ہوا اورریموٹ سے دھماکا کردیاگیا۔ کیا ایک ضعیف خاتون اس کی پوتی اور ایک تین سالہ بچے کو بارودی آگ کا نشانہ بناکر ہارون رشید سے کسی بات کا انتقام لینا مقصودتھا؟ ہارون رشید کے بھائی اور بھتیجا تو پہلے ہی فوج کے قبضہ میں ہیں۔ ہارون رشید بھی مفرور نہیں ہیں بلکہ آزادی سے گھومتے پھررہے ہیں۔ چند دن پہلے ہی کراچی سے ہوکر گئے ہیں اور ان کی آمدورفت خفیہ نہیں تھی۔ پھر انہیں مفرور اور اشتہاری کیوں کرقرار دے دیاگیا۔ یہ ہتھکنڈے تو صرف پولیس سے مخصوص ہیں۔ بڑی سادگی سے یہ کہہ دیاگیا ہے کہ دھماکے سے برابر والا گھرگرنے سے ہلاکتیں ہوگئی ہوں گی۔ حالانکہ معروف طریقہ یہ ہے کہ کسی گھرکو اڑانے سے پہلے باقاعدہ اعلان کیاجاتاہے کہ لوگ محفوظ مقام پرمنتقل ہوجائیں۔ اس موقع پر ایسا نہیں کیاگیا چنانچہ یہ صریحاً بے گناہوں کا قتل ہے۔ ہارون رشید سے کوئی شکایت تھی تو ان سے معاملہ کیا ہوتا۔ کیا ان کی ضعیف والدہ‘ بھتیجی اور تین سالہ بچہ بھی دہشت گردتھی؟ کیا فوج کے ذمہ داران اس بات سے لاعلم ہیں کہ امریکا کے ہاتھوں جو بے گناہ شہید ہورہے ہیں ان کی وجہ سے انتقام کی آگ تیز ہورہی ہے۔ خود پاکستان کے حکمران امریکا سے یہ شکوہ کرتے رہے ہیں کہ بے گناہوں کے قتل سے شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کی مثال سامنے ہے جہاں امریکا اپنی وحشت اوردرندگی کے باوجود 9 سال میں افغانوں پرقابونہیں پاسکاہے۔ اب اسی طریقے پر پاک فوج عمل پیراہے تو نتائج بھی وہی نکلیں گے۔ ایک قبائلی علاقے پرپاکستان کا پرچم لہرادینا ایسی کامیابی نہیں ہے جسے دیرپا قراردیاجاسکے۔ یہ وہی علاقے ہیں جن کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ وہاںفوج رکھنے کی ضرورت نہیں‘ یہ قبائلی پاکستان کے محافظ ہیں۔ علاقے فتح کرنے والے یاد رکھیں کہ اصل فتح دلوں کی ہوتی ہے۔ ہارون رشید باجوڑسے عوام کے منتخب نمائندہ تھے اور انہوں نے احتجاجاً قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیاتھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب انہیں عوام کی تائید وحمایت حاصل نہیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اب بھی رکن قومی اسمبلی ہوتے۔ ایسے شخص کو دہشت گرد اور اشتہاری قراردینا کہاں کی دانش مندی ہی؟ ان کے گھرسے تو ایک کارتوس بھی برآمد نہیں ہوا حالانکہ اب تو جگہ جگہ سے خودکش جیکٹیں ایسے برآمد ہورہی ہیں جیسے شہر‘ شہر ان کے کارخانے لگے ہوں۔ فوج کے پاس اس کے اپنے دعوے کے سوا اورکیا ثبوت ہے کہ ہارون رشید دہشت گرد ہیں اور ان کے مکان میں دہشت گردوں کی شوریٰ منعقد ہوتی تھی۔ کیا ان کو ڈرون حملوں اور اندھادھند فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے کی سزادی گئی ہے۔؟ 2005ءمیں ڈمہ ڈولا پر امریکا نے جو میزائل حملہ کیا تھا‘ جنرل پرویزمشرف کی حکومت نے اس کے بارے میں کہاتھا کہ چند دہشت گردگھرمیں بم بنارہے تھے جو پھٹ گیا۔ لیکن باجوڑ میں ایک جرات مند صحافی حیات اللہ نے ملبہ میں سے امریکی میزائل کے ٹکڑے برآمد کرکے ان کی تشہیرکردی۔ اس ”جرم“ میں اسے اغواءکرکے بے دردی سے شہیدکردیاگیا ۔ اسے حق گوئی کہ سزادی گئی اور آج تک پاکستان کی کوئی بھی ایجنسی یہ نہیں بتاسکی کہ اسے کس نے شہیدکیا۔ کیا حق گوئی کی سزاایسے ہی ملتی رہے گی؟ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص ہارون رشید کو دہشت گرد قراردیاگیا بلکہ اسے یہ سزا جماعت اسلامی سے وابستگی پردی گئی ہے۔ ایک عرصہ سے سیکولرقوتیں جماعت اسلامی کو دہشت گردیا دہشت گردوں کی پشت پناہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ اگرکوئی ملتان روڈ سے گرفتارہوتاہے تو اس کی گرفتاری منصورہ کے قریب سے ظاہرکی جاتی ہے اورکسی نہ کسی طرح تعلق جماعت اسلامی سے جوڑا جاتاہے۔ لیکن جماعت اسلامی نے کبھی مسلح جدوجہد کی حمایت کی اور نہ ہی ریاست کے خلاف کسی کارروائی میں ملوث ہوئی۔ یہی وہ جماعت ہے جس نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر مشرقی پاکستان میں پاک فوج کا ساتھ دیا اور ہزاروں جانوں کی قربانی پیش کی۔ فوج یاد رکھے کہ پاکستان پر پھرکبھی برا وقت آیا تو جماعت اسلامی اور اس کے کارکن ہی سربکف ہوں گے‘ آمریت کا ساتھ دینے والے وہ لوگ نہیں جن کے ”بے منزل رہنما“ نے کہاتھا کہ ہم تو پانچویں قومیت ہیں‘ ملک پر برا وقت آیا تو وہ لوگ آگے جائیں جو پہلی اور دوسری قومیت ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن خوب جانتے ہیں کہ ان کی راہ میں اصل رکاوٹ کون ہے اور کس سے اصل خطرہ ہے لیکن ایسا لگتاہے کہ اس ملک کے محافظ کہلانے والے بھی دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثرہوتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہارون رشید پرالزام تراشی اور ان کی والدہ‘ بھتیجی اور ایک بچے کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے ورنہ تو کسی پربھی الزام لگ سکتاہے۔

  7. اس اداریہ کا یہ پوائنٹ مجھے اچھا لگا کہ اس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ہارون رشید صاحب کی والدہ اور بتھیجی کے قتل کا نوٹس بھی لینا چاہیے اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔
    پتا نہیں عاصمہ جہانگیر اور خواتین حقوق کی دیگر چیمپین کہاں ہیں جو ان دو خواتین (ایک ضعیف اور ایک بچی) کے قتل پر خاموش ہیں۔ شاید اس سے ان کو جو پیسے ملتے ہیں زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوجائیں گے

  8. I think we should give some blame to Jamat Islami as well for its not-so-clean past, as far as siding with the army is concerned. Throughout Pakistan’s tumultuous six-decade history, JI has acted like the B team of the generals.
    You say that the brain of the soldier is in his knees. I agree with that 101%, but I say the same goes for JI leaders as well. How long does it take a sane person to know his friends and foes? Isn’t it a Hadith that says a Muslim is never stung from one hole twice? Here we have a so-called revolutionary party that has offered itself to the khakis to be used over and over again. Yet these “revolutionary” leaders are yet to understand.
    The army is no one’s friend. It works for its interests and only that alone. It will use whoever it thinks will further its evil agenda. It’s not accountable to anyone, not even God. It’s the only army with a country when it should be the very opposite as is the norm in the civilised world. For it, it doesn’t matter whether a daughter of the land is sold to non-Muslims, whether she is raped and killed, whether innocent countrymen are languishing in Guantanamo and Bagram prisons. The army institution’s very moral fundamentals have eroded. It’s like the devil, whose heart has been blackened to a point of no return.
    You are right. People like us aren’t fit for the army. We use just too much common sense and dig into our conscience to judge a situation. The soldier is a zombie, who does whatever his superior says, right or wrong. But I can for sure say that JI leaders are fit for the army. They are as dumb as any general. While the khakis expose their intelligence on the spot by stupid comments, it takes years for JI leaders to know that siding with Gen Zia was wrong. But then after some years, plays its role in getting the 17th amendment passed through parliament and strengthens the hands of another army dictator Musharraf. And yet again its duped, when the same bloody general backtracks on his word.
    Now you tell me who thinks from his kidneys, knees or whatever body part befits the maxim.
    With no offence to JI workers, but the party is need of a major overhaul. It’s said the maximum primetime for a revolutionary group is between 30 and 35 years. It’s within this time period that it achieves its agenda or just fades into the likes of any other contemporary political party. JI has long passed its prime age. It should either retire or should change its strategy once and for all.
    For me, the demise of JI started the day its founder decided to step into practical politics. To this day, the party has been nose diving. Its very basics have been sidelined. Its workers are a bit disciplined, a bit decent but lack many qualities of a revolutionary Islamic party. How many of its workers pray or have the urge to pray; how many don’t smoke; how many don’t chew on betel nuts, mawa, etc; how many can be role models for the nation’s generation. Just sporting a beard doesn’t make you a revolutionary. The urge from within is what moves you.
    There are many examples for JI in the likes of other parties like Akhwan and its many sister organisations; Turkey’s AKP. For that matter, even Hizb ul Tahrir with all its flaws is better than JI. At least, it has stuck to its agenda for over six decades.
    Basically, what I think is that JI is confused. It’s yet to mark a path for itself. It has a clear goal of bringing about an Islamic revolution in the country but a very, very vague idea of how to go about it. If mere words could change the world, then the Imam of Haram Al Makki sobs each year with millions joining in on the day of Arafah. God is yet to hear his cries. Isn’t it obvious why the throne of the Almighty is yet to move??
    I am so sorry for being harsh in my words. But I guess the JI, the army, and other political and non-political entities of the country are generally on the decline. Some will expire sooner, others will take time. But it is for sure a deep abyss in which all of them are in a state of freefall. Let’s see who reaches the ground first!!!

  9. BISMILLAH

    You are talking right they think with there feets

  10. http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5319745,00.html?maca=urd-rss-urd-all-1497-rdf

  11. DW-WORLD.DE | پرنٹ کریں

    04.03.2010
    افغانیوں کا گڑھ ، کراچی کا علاقہ سہراب گڑھ

    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے ؟

    طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملا آغا جان کو کراچی کے سہراب گوٹھ نامی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان عسکریت پسند کب سے پناہ لینے لگے اور کس طرح یہ علاقہ عسکریت پسندوں کا مرکز بنتا گیا؟

    کہنے کو تو وہ علاقہ بھی سہراب گوٹھ ہے جو راشد منہاس روڈ پر بنائے گئے نئے flyoverکے نیچے پایا جاتا ہے۔ اس سے آگے الآصف اسکوائر اور معمار اسکوائر بھی سہراب گوٹھ ہی کہلائے جاتے ہیں۔مگر یہ نام لیجئے اور جو علاقہ سب سے پہلے ذہن میں آئے گا وہ ہے جرائم کی ایک ایسی دنیا جہاں مجرموں کی سرکوبی کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے جاتے ہوئے بھی سو بار سوچتے ہیں۔ یہ ہے وہ سہراب گوٹھ جہاں جرم بستا ہے اور جہاں اس خطے کے کئی نامی گرامی دہشتگردوں نے پناہ حاصل کی۔

    یہاں رہنے والوں میں ایک بڑی تعداد محسود قبائلیوں کی ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو وزیرستان میں پاکستانی افواج کے خلاف نبرد آزما ہے۔ سہراب گوٹھ کے رہنے والے محسود اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں سے اس جنگ میں لڑنے والے محسود قبائلیوں کیلئے مالی امداد بھی بھیجی جاتی ہے اور وہاں زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ ان زخمیوں کیلئے رہائش کا بھی یہاں انتظام ہے۔

    سیکورٹی امور کے تجزیہ کار جمیل یوسف ان لوگوں کی یہاں موجودگی کو افغان جنگ کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ جو سنہ 80 کی دہائی میں لڑی گئی، اپنے پیچھے ایک تکلیف دہ تاریخ چھوڑ گئی ہے اور یہ لوگ اسی دکھ کی باقیات ہیں۔

    Bildunterschrift: Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: سہراب گوٹھ میں پولیس بھی جانے سے گھبراتی ہے

    اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے تمام داخلی راستوں پر یہ لوگ بیٹھے ہیں اور سرنگوں سے انہوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے ان جرائم پیشہ کو پنپنے کا خود موقع دیا صرف اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے۔ ہر بار ان کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کی بات کی گئی لیکن پھر فیصلہ موقوف کردیا گیا کہ کسی سیاسی حلیف کویہ بات راس نہ آتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی اگر ان کو یہاں سے نہیں ہٹایا گیا تو صورتحال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔اور یہ عمل پولیس یا رینجرز کے بس کا نہیں۔ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ یہ عسکری کارروائی تو اب فوج کی نگرانی میں ہی ہو سکتا ہے۔

    یہ سب صورتحال کراچی پولیس اور امن عامّہ کے ذمہ دار اعلیٰ حکّام کے علم میں ہے۔ مگر ان سب کو جانتے ہوئے بھی وہ اس علاقے میں کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرائم پیشہ افراد کی بستی میں گھس جانا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں اسلحہ بہت بھاری تعداد میں پایا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی میں سندھ حکومت نے سہراب گوٹھ پر ہی واقع منشیات کے اڈّوں اور زمین کے ناجائز قبضوں کو ختم کرنے کیلئے جو آپریشن کلین اپ کیا تھا اس کے نتیجے میں دوسرے ہی دن بد ترین لسانی فسادات نے شہر کو خون سے رنگ دیاتھا۔ شاید حکومت ایسی ہی کسی صورتحال سے خائف ہے۔

    دوسرے یہ کہ سہراب گوٹھ کے رہائشی مالی طور پر بہت مستحکم ہیں۔ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ شہر میں چلنے والے ڈمپروں میں سے تقریبا پانچ سو ان کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک لگ بھگ 54سے 50 لاکھ روپے کی مالیت کا ہوتا ہے۔ جہاں روپے پیسے کی اتنی ریل پیل ہو وہاں مزید اسلحہ حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوجاتا ہے۔

    قانون نافذ کرنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا یہاں ہاتھ ڈالنا کوئی عقلمندی ہوگی بھی کہ نہیں۔ پھر کچھ یوں بھی ہے کہ پاکستان کی پولیس بالکل دودھ سے دھلی ہوئی بھی نہیں۔ خود پولیس والے اس بات کے معترف ہیں کہ ان کے یہاں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بھی اس علاقے میں کارروائی کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ گڈاپ ٹاﺅن جہاں سہراب گوٹھ پایا جاتا ہے وہاں کے ٹاﺅن پولیس آفیسر (TPO) کا کہنا ہے کہ اس علاقے کا ایک سابقہ چوکی انچارج اعظم محسود جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کے حوالے سے بدعنوان رہا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ایسے مجرموں کی پشت پناہی کرتے رہے جو اسلحہ اور منشیات کا کاروبار کرتے، اغواء برائے تاوان میں ملوث ہوتے، اور غیر پشتونوں کو دھمکا کر ان کی جائیداد ہڑپ کرجاتے تھے۔ اعلیٰ حکام نے ان کا تبادلہ تو کردیا لیکن ان کو پولیس فورس سے برطرف کرنا اتنا آسان نہیں۔

    اس علاقے میں قانون بھی پھر وہی لوگ ہیں جو جرم بھی کرتے ہیں اور جرم کی اعانت بھی ۔حکومت کی کوئی رٹ نظر ہی نہیں آتی۔ پولیس کسی مفرور مجرم کو پکڑنے یہاں داخل نہیں ہوسکتی۔کچھ سال پہلے انسداد تشددسیل برائے جرائم کے سربراہ فاروق اعوان کچھ جرائم پیشہ افراد کی وہاں موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارنے وہاں گئے تھے لیکن وہاں موجود مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوکر واپس چلے گئے تھے۔ ان کے ساتھ دو پولیس اہلکار جاں بحق بھی ہوئے تھے۔

    افغان طالبان کا ایک اہم کمانڈر ملا حسن رحمانی اسی علاقے کے ایک مدرسے میں کافی عرصے مقیم رہے۔ ملا برادر کی گرفتاری سے قبل پولیس نے چاہا تھا کہ ان کو گرفتار کیا جائے لیکن پھر ایک حسّاس ادارے نے دخل اندازی کی اور گرفتاری رک گئی۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ جس علاقے میں یہ مدرسہ پایا جاتا ہے اس کی پاسداری بلوچستان کے بگٹی قبائل کرتے ہیں۔ اور ان سے جھگڑا مول لینا بلوچستان کی سیاست میں ایک نئی چنگاری ڈالنے کے مترادف سمجھا گیا۔

    Bildunterschrift: پاکستان کا عدالتی نظام بھی اس علاقے میں کچھ نہیں کر سکتا

    سابق وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر اس بات کو مانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہاں ہونا بہت خطرے کی بات ہے۔ نہ صرف یہ جرائم پیشہ ہیں بلکہ دہشتگردی کو ہوا اور پناہ دینے والے بھی۔ معین الدین حیدر کہتے ہیں ’کراچی میں اسلحہ واقعی بہت موجود ہے، اور متحرب دھڑے جب موقع ملتا ہے اس کا استعمال بڑی آزادی سے کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب وزارتِ داخلہ ان کے ہاتھ میں تھی تو وہ ہتھیاروں سے پاک معاشرے کے لئے کئی مہم چلاتے رہے تھے، لیکن ان مہمات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ کیوں نہیں نکلا تو انہوں نے کہاکہ اس وقت کی حکومت کی ترجیحات مختلف تھیں۔

    محسود قبیلہ اپنے جرگہ نظام کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں حصولِ انصاف کے عمل میں خواتین کو حصہ لینے کا کوئی حق نہیں یہ سخت کٹر قبائلی نظام کسی جدید طور طریق کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔علاقے کی بااثر لوگوں پر مشتمل یہ جرگہ صرف محسود ہی نہیں بلکہ ازبک، تاجک، اور دری بولنے والے دوسرے افغانوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کی سرپرستی بھی کرتاہے۔ نہ صرف شہر کے جرائم پیشہ افراد یہاں پناہ حاصل کرتے ہیں بلکہ تاوان کیلئے اغواءکئے گئے لوگ بھی یہاں رکھے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کوپھر یاتو لیاری یا حب کے جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے یا پھر ان کے محفوظ عقوبت خانوں میں متقل کر دیا جاتا ہے۔

    ایسا نہیں کہ یہاں صرف یہی جرائم پیشہ گروہ پائے جاتے ہیں۔ عام آدمی بھی یہاں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر چند کہ وہ بھی یہاں کبھی غیر ملکیوں کی طرح افغانستان سے آئے تھے مگر اب ان کی دوسری نسل یہاں پل بڑھ رہی ہے اور وہ بھی اس ملک کے اسی طرح شہری ہیں جیسا کہ کوئی اور۔ یہاں کے ایک چائے خانے میں بیٹھے ازبک اور تاجک نوجوانوں نے بتایا کہ ان کے گھروں میں ریڈیو پر اب بھی ، افغانستان کی طرح، ڈوئچے ویلے کی نشریات سنی جاتی ہیں۔ یہ روایات بھی وہ اپنے وطن سے لے کر آئے ہیں۔ لیکن اب تو پاکستان ہی ان کا وطن ہے۔ اور رہی بات جرائم پیشہ کی، تو ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ کس معاشرے میں نہیں ہوتے۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: