Archive for جنوری, 2010

Articles

ملزم ‘بےگناہ اور مجرم کا فیصلہ: وکیل بھی کسی سے پیچھے نہیں

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 28, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

اپنے پچھلے پوسٹ’’مقتول مجرم ہوتا ہے اور سیاسی کارکن معصوم‘‘میں‘ میں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ جب کسی سیاسی جماعت یا مسلک کا کوئی رکن دہشت گردی کے کسی واقعہ میں پکڑا جاتا ہے تو وہ مسلک یا پارٹی تھانوں کے گھیرا کے ساتھ ساتھ دھمکیوں پر بھی اُتر آتی ہے‘ یہی چلن اب وکلا نے بھی اختیار کیا ہے۔ اگر کسی پر دہشت گردی یا قتل کا الزم لگا یا جاتاہے تو اس پر مقدمہ چلنا چاہیے‘ اگر بے گناہ ثابت ہوتا ہے‘ تو بری ہوجائے گا ‘اگر گناہ گار ہے تو سزا مل جائے گی ۔

لیکن لگتا ہے قانون کی حکمرانی کی بات کرنےوالے ہی اس کی پاسداری پر آمادہ نہیں۔ روزنامہ جسارت نے اس اہم موضوع پر آج کے ادارتی صفحے پر ’’شذرہ‘‘ لکھا ہے (گرافک ویو کے لیے یہاں کلک کریں) ۔ قارئین تلخابہ ضرور اس کو پڑھ لیں ‘خصوصا وہ دوست جو میرے پچھلے پوسٹ پر سخت ناراض ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وکلاءبرادری کاملزم کے لیے احتجاج

لاہورمیں گھریلو کام کرنے والی 12 سال کی ایک بچی شازیہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوگئی۔ قتل کے الزام میں لاہورہائی کورٹ بارکے سابق صدر ایڈووکیٹ نعیم کو گرفتارکرلیا گیا جس کے گھرمیںیہ بچی کام کرتی تھی۔ ٹی وی چینلز پریہ سانحہ سامنے آنے اور عیسائی برادری کی طرف سے زبردست مظاہرہ کے بعد اعلیٰ حکام بھی متوجہ ہوئے۔ شازیہ کی ہلاکت کے فوراً بعد ایڈووکیٹ نعیم اور اس کے اہل خانہ روپوش ہوگئے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق شازیہ پرجسمانی تشددکیاگیا تھا اور کئی دن سے اسے اپنے گھروالوں سے ملنے بھی نہیں دیاجارہاتھا۔ یہاں تک تو معاملہ بظاہرسیدھا سادا ہے لیکن اب حالات نے ایک نیا موڑلے لیاہے۔ لاہورکے وکلاءاپنے ہم پیشہ اور سابق صدر ہائی کورٹ بارکے حق میں احتجاج پر اترآئے ہیں۔ گزشتہ منگل کو ملزم کی عدالت میں پیشی پروکلاءنے اس کے حق میں نعرہ بازی کی اور اگلے دن یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا۔ موجودہ صدرہائی کورٹ بار کا کہناہے کہ ذرائع ابلاغ نے اس معاملہ کو غیرضروری طورپر اچھالاہے اور صرف یک طرفہ موقف پیش کیاہے۔ ان کے مطابق ملزم بے گناہ ہے۔ لیکن ایک طرف تو ملزم کا مع اہل خانہ روپوش ہوجانا اسے مشکوک ٹھیراتاہے دوسری طرف اسے اپنا موقف پیش کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔ لیکن اب تک اس کی طرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ وکلاءعدلیہ کا ایک حصہ ہیں اور معاملہ عدالت میں پیش ہوچکاہے جہاں سے تین دن کا جسمانی ریمانڈ دیاگیاہے۔ مناسب تویہ تھا کہ مظاہرے‘ نعرے بازی اور یوم احتجاج منانے کے بجائے عدالت ہی میں مقدمہ لڑاجاتا اوراگرملزم بے گناہ ہے تو اس کی بریت کی کوشش کی جاتی۔ ملزم کی حمایت کرنے والے خود وکیل ہیں اور وہ یہ کام با آسانی کرسکتے ہیں۔ کسی غریب وبے وسیلہ ملزم کو بے گناہ ہونے کے باوجود وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے گھرکا سامان تک بیچنا پڑتاہے‘ نعیم کو تو یہ خدمات مفت میں حاصل ہوجائیںگی۔ لیکن صرف اس بنیاد پرکسی ملزم کا ساتھ دینا کہ وہ ہم پیشہ ہے‘ ناانصافی ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی اپنے پیشے‘ برادری‘ قبیلے یا جماعت کی بنیاد پر حصول انصاف میں رکاوٹ بن سکتاہے جیساکہ ایک تجزیہ نگارنے 9 اپریل کو کراچی میں وکیلوں ہی کوزندہ جلادینے کا حوالہ دیاہے جب عدالت کا گھیراﺅ کرکے سماعت نہیں ہونے دی گئی تھی۔ آخر ایک جیتی جاگتی زندگی موت کی نیندسوئی ہے۔ اگر وہ کسی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے تو اس کا علاج کیوں نہ کروایا گیا۔ پوسٹم مارٹم کی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی ہے اس سے بہت کچھ معلوم ہوسکے گا۔ اسی سانحہ کے حوالے سے ایک اورگھناﺅنی حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ ہدایت نامی ایک بے ہدایت شخص نے یہ کاروبار بنارکھا تھا کہ غریب والدین کو کم اجرت دے کر ان کے بچے حاصل کرکے امیرگھرانوں میں ملازم رکھواتا تھا اور ان سے بڑی رقم حاصل کرتاتھا۔ ایسا کاروبار اور بھی کئی لوگ کررہے ہوں گے۔ جو لوگ ایسے بچے حاصل کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں۔ پولیس کی طرف سے یہ تاکید ہے کہ گھریلو ملازمین کے کوائف سے تھانے کو مطلع کیاجائے درحقیقت یہ غلامی کا ایک سلسلہ ہے اور ایسے بچوں پرمظالم کی کہیں داد‘ فریاد بھی نہیں ہوتی۔ گاﺅں‘ دیہات میں آئے دن زمینداروں کی نجی جیلوں سے ہاری‘ کسان‘ اوربھٹہ مالکان کے قبضہ سے مزدور برآمد کیے جارہے ہیں ۔ ایسے ظالموں کو سزادلوانے کے لیے وکلاءکو اپنا اخلاقی کردار اداکرنا چاہیے اور مجرموں کی وکالت سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن وکلاءتو یہ کہتے ہیں کہ انہیں صرف اپنی فیس سے غرض ہے خواہ کروڑوں میں ہو۔ کیا یہ غیراخلاقی اورغیراسلامی حرکت نہیں۔؟

 

 

Articles

مقتول مجرم ہوتا ہے اور سیاسی کارکن معصوم

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 27, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: ,

یہ تصویر ان مبینہ دہشت گردوں کی ہے جن پر قوم پرست جماعت کی ریلی پر فائرنگ کا الزام ہے۔ کل رات لسانی جماعت کے کارکنان نے گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے تھا نے کا گھیراو کیا۔ آج کی اپ ڈیٹس نہیں پتا ۔ لیکن میرا ایک سوال ہے کہ کیا ملزم کو’’ بے گناہ‘‘ یا ’’گناہ گار‘‘ ثابت کرنا عدالت کا کام ہے یا ہر باثر سیاسی جماعت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث کارکنان کی بے گناہی کا فیصلہ کرے گی؟ یہ معاملہ صرف مذکورہ لسانی جماعت تک محدود نہیں ‘ شیعہ ایکشن کمیٹی بھی ’’جلا و گھیراو ‘‘ میں ملوث اپنے دہشت گرد کارکنان کو بے گناہ قرار دے کر روز پریس کانفرنس کررہی ہے۔ سانحہ یوم عاشور کو ایک ماہ گزرنے والا ہے ‘ صرف چند دن قبل ہی کراچی کے سی سی پی او وسیم احمد پر اپنے آقا غلام احمد قادیانی ملعون کی طرح اچانک ’’وحی نازل ‘‘ ہوئی کہ یوم عاشور پر دھماکے کرنے والے ’’جنداللہ ‘‘ کے کارکنان ہیں جنہوں نے ’’اعتراف جرم ‘‘  بھی کرلیا ہے۔

یار لوگ کہتے ہیں یہ ’’ جوڈیشل ایکٹیوازم ‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی میں گذشتہ کئی برسوں سے جس طرح کی صورت حال ہے اس میں اللہ کے بعد سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس کو ایک ازخودنوٹس لے کر سانحہ یوم عاشور میں معصوم عزاداروں کے قتل  اور اس کے بعد کراچی کے معاشی قتل کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیے۔ ورنہ یہاں ہر کسی کا کارکن بے گناہ اور معصوم ہے، یہ تو دراصل مرنے اور لٹنے والا ہے جو بدمعاش ہے۔

Articles

قبائلی زندہ باد: عالمی دہشت گرد امریکا کا ڈرون طیارہ مار گرایا

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 25, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

اے میرے غیر ت مند قبائلی تجھے سلام۔ تم نے وہ کام کردیا جوعوام کے تنخواہ داروں کو کرنا چاہیے تھا۔ وہ ہاتھ جو کبھی پاکستان فوج کو سلیوٹ کرنے کے لیے ماتھے تک جاتے تھے آج تمہارے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ ایک ایسی وقت میں جب قوم سے ٹیکسوں کی صورت میں لیے جانے والے خون پسینہ کی کمائی کا بڑا حصہ خرچ کرنے والی فوج ڈرون گرانے کی مشقوں میں مصروف ہے تو تم نے غیرت کا شاندار عملی مظاہرہ کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ تمہیں شکست دینا اس لیے ناممکن ہے کیوں کہ تمہارے ہاتھ بندوق اٹھانے کے لیے تمہارے رگوں میں دوڑنے والی غیرت مند قبائلی خون کے سوا کسی چیز کا مختاج نہیں۔ لڑا تمہارا پیشہ نہیں۔ تم تنخواہ دار ہوں اور نہ کرائے کے سپاہی۔ ایک دفعہ پھر تمہیں سلام

رکیے ! پا ک فوج کے سپاہیوں خدا را اپنی قوم کے خلاف لڑنا چھوڑ دو۔ دشمن کو پہچانو! پوری قوم تمہارے ساتھ ہوگی۔ محب وطن قبائلیوں کے خلاف آپریشن بند کردو۔ اگر تم اس ملک کی فوج ہو، اگر تم امریکا کی فوج نہیں ہو ‘ اگر تم سیاسی قیادت کی طرح امریکا سے این او سی نہیں لے کر آتے تو پھر ثابت کرو۔ امریکا کے پٹھو حکمرانوں کو گھر کا راستہ ہم عوام دکھائیں گے۔

Articles

ہم بے غیرت ہیں: ڈرون گرانے یا بے بسی کا مظاہرہ؟

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 19, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

خبر تو یہ ہے کہ پاک فوج نے مظفر گڑھ کے نزدیک ڈرون طیارے مار گرانے کا عملی مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ مظاہرہ دراصل کسی اور چیز کا ہے۔ فوج اس مظاہرے سے دراصل امریکا کو یہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ ہمیں کم تر نہیں سمجھو۔ ہمارے فنڈز ریلیز کردو۔ ہمارے ساتھ معاملات اپنی شرائط پر ہی کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یہ ایک خیال ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس مظاہرہ سے فوج اس ملک کی بے غیرت ، بے عزت ، بے شرم اور ہیجڑے اور میراثی سیاسی قیادت سے کہنا چاہ رہی ہے کہ تم ’’حکم ‘‘ تو دو۔ تم ذمہ داری تو لو۔ تم اس کو سیاسی کور تو دو۔ تم ایک بیان تو جاری کرو پھر دیکھو ہم بے لگام امریکی ڈرون کا کیسے علاج کرتے ہیں ۔ یہ دوسری سوچ میری بھی ہے جس کے اظہار پر میرے ایک دوست مجھ پر برس پڑےکہ کیا بے تکی باتیں کررہے ہو۔ کیا فوج نے کیری لوگر بل پر سیاسی قیادت سے پوچھا تھا۔ کیا سیاست دانوں نے فوج کی اس رگ کو پکڑا ہے کہ اس میں غیرت نامی خون کی گردش ہوتی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ جناب آپ کا غصہ بجا لیکن فوج کو بھی تو کچھ ’’جسٹی فیکیشن‘‘ چاہیے۔ فوج پر تو الزام ہے کہ اس نے کبھی غیروں سے جنگ نہیں جیتی بلکہ ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے ‘ ایسے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیے تھے جیسا اتحاد دنیا میں کہیں نظر نہیں آیا۔ ۹۰ ہزار فوجیوں میں کسی ایک کو بھارتیوں کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ڈسپلن توڑنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ ان پر الزام اور بھی ہیں ‘ لیکن ہماری حکومت کو کیا ہوا ہے۔ یہ تو سیاسی ہے، یہ تو عوامی ہے یا تو عوام کے پاس جانے والی حکومت ہے تو پھر ان کی غیرت کی رگ کیوں نہیں پھڑکتی؟
ایسے میں ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون گرانے کا مظاہرہ نہیں بلکہ بے بسی کا مظاہرہ ہے کہ صلاحیت ہونے کے باوجود یہ کام نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم بے ہمت اور بے غیر ت ہیں۔

Articles

بولٹن مارکیٹ کو آگ کس نے لگائی؟

In پاکستان on جنوری 19, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

پاکستان کے معاشی مرکز کراچی کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ میں آگ لگانے والوں کا "پتا” لگنا ابھی باقی ہے۔ ملک کے انٹیلیجنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ایسے لوگوں کے تلاش میں ہیں جن کے سر یہ الزام تھوپا جاسکے۔ ہر خبر کی جڑ تک پہنچنے والے ٹی وی اینکرز اور ان کے چینلز ملک کے سب سے انتہا پسند اوت تشدد پسند گروہ سے دبے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اللہ بھلا کرے کچھ نوجوانوں نے ایک ایسی فلم بنائی ہے جس میں حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ فلم دو اقساط میں تلخابہ کے انگریزی بلاگ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ تحقیقاتی فلم کے لیے یہاں کلک کریں۔

Articles

عوام دوست پارٹی کی حکومت شیعہ دوست ہے‘ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا انکشاف

In پاکستان on جنوری 15, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

پختون کے گھر پیدا ہونے کے باوجود مجھے خان کہلوانا پسند نہیں۔ چاہتا ہوں مجھے صرف پاکستانی پکارا جائے۔ بالکل اسی طرح مجھے ہمیشہ اس بات سے نفرت رہی ہے کہ کوئی مجھے بریلوی ، دیوبندی ، اہل حدیث ، حنفی ، حنبلی ،شافعی ، مالکی ، جعفری ، اہل سنت اوراہل تشیع پکارے۔ کیا ہم صرف مسلمان نہیں کہلائے جاسکتے جس طرح ہمارے نبی مہربان صل اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام مسلمان ہی کہلائے جاتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں جو دوست ملے تھے ان میں اہل تشیع ، اہل سنت ، حتیٰ کہ دہریے بھی تھے۔ ایک دوست کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ شاید ہی میں نے کسی سے اتنی بحث کی ہوگی جتنا میں نے ان کو سنایا ہے۔ میں ان کو پاکستان میں فرقہ پرستی کا ذمہ دار ٹھیراتا تھا۔ اب بھی میری سوچ نہیں بدلی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بالکل اسی طرح کہ ’’اپنا مذہب چھوڑو نہیں ‘ دوسرے کا مذہب چھیڑو نہیں ‘‘ کہ مصداق ہمیں کسی کے مسلک کو برا کہنے کے بجائے اپنے مسلک کے صحیح ہونے کی گواہی اپنے عمل سے دینی چاہیے۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ کہیں مجھے کسی خاص مسلک کا حامی اور کسی دوسرے کا مخالف نہ سمجھا جائے۔
میں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو یہ سننے لگا کہ میڈیا پر ایک خاص مسلک کا غلبہ ہے۔ کراچی کے ایک بزرگ صحافی نے تو یہاں کے میڈیا گروپس کے متعلق کہا کہ یہاں یا تو الطاف حسین کے ماننے والوں کی چلتی ہے یا پھر امام حسین کے۔ مجھے نہیں پتا کہ کس کی چلتی ہے اور کس کی نہیں۔ ہمارا میڈیا کس حد تک ’’برابر روزگار فراہم ‘‘ کرنے کے فلسفے پر عمل کرتا ہے۔ لیکن آج ایک بہت ہی دلچسپ خبر نظر سے گذری جس میں ’’عوام دوست‘‘ پیپلز پارٹی کی ایک اہم لیڈر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ’’شیعہ دوست‘‘ ہے۔ آج ۱۵جنوری کو شائع ہونے والی اس خبر کی سرخی کچھ یوں ہے’’ذوالفقار مرزا سے مذاکرات کے بعد شیعہ علما نے احتجاج کی کال واپس لے لی‘‘(تفصیلی خبر کے لیے یہاں کلک کریں)۔ خبر میں شہلا رضا سے متعلق یہ جملے درج ہیں’’اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور شیعہ علما کے درمیان پل کا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت عوام دوست ہے۔‘‘
زرادری اگرچہ لاہور میں دربار لگاتے ہیں لیکن زرداری نے نوڈیرو میں تقریر کے ذریعے سندھ کارڈ کا تاثر دے کر پیپلز پارٹی کو سندھی قوم پرست پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب شہلا رضا کا یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک خاص مسلک کی دوست جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی کے ناقدین تک کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کتنی کرپٹ اور عوام دشمن نہ ہوجائے اس کی ایک خصوصیت بہر حال اس کی خوبی شمار ہوتی ہے کہ یہ وفاق کی علامت ہے، لگتا یوں ہے اس کے قائدین اس کو سندھ کی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اس پارٹی سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ مسالک کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ یہ لسانی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ جماعت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔

Articles

کراچی ٹارگٹ کلنگ اور ہماری معصوم سیاسی جماعتیں

In پاکستان on جنوری 11, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

 
سیاست کو اگر منافقت کی ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے تو اس پر ہمیں خفا نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی غالب اکثریت اگر منافق ہے تو ہمارے ابلاغ کے ذرائع بھی کم منافق نہیں ۔ وسیع تر ’’قومی مفاد‘‘ میں ہمارے میڈیا نے حکومتی اتحادیوں کی پریس کانفرنس کو نشر کرنے پر ’’اکتفا‘‘ کیا ہے۔ کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس وقت یہاں کیا ہورہا ہے؟ کون کس کو مار رہا ہے؟ اسلحہ کس کے پاس ہے؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟
گزشتہ روز گٹر باغیچے سے ملنے والی بوری بند لاش نے اہل کراچی کو ایک’’عہد‘‘ کی یاد دلادی۔

کل اتحادی گورنر ہاوس میں سر جوڑ کر کراچی کے امن کے لیے غور وفکر کرتے رہے اور پھر ایک نتیجے پر پہنچے ’’ کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات لسانی ہیں نہ سیاسی،ان واقعات میں لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا ملوث ہے جس سے نمٹنے کیلئے رینجرز کو اختیارات دیئے گئے ہیں‘‘
پاکستانی ٹی وی چینلز کے دنیا بھر میں ناظرین نے اسے حقیقت جانا ہوگا لیکن اہل کراچی نے جو کئی روز بلکہ ایک عرصے سے رو رہے ہیں ‘ خوب قہقہے لگائے ہوں گے۔ کیوں نہ ہنسیں گے‘ لطفیہ جو سنا۔
ایم کیو یم کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس جماعت نے کراچی اور خود اردو بوالنے والوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کی تفصیل بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ لینڈ مافیا کی صورت میں نظر آنے والی دوسری جماعت اے این پی کے کارنامے بھی اتنے ڈھکے چھپے نہیں ہیں کہ اس کو کوئی انکشاف بناکر پیش کیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ آئے روز رونما ہونے والا لسانی جھگڑا دراصل کراچی کے دو بڑی لسانی اکائیوں کی نام نہاد نمائندگی کرنے والوں کے درمیان زمین پر قبضے کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن اس سب جھگڑے میں پیپلز پارٹی کس جگہ کھڑی ہے اس کے لیے آپ نبیل گبول صاحب کا جیو ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ ردعمل پڑھ لیں۔ انہوں نے کہا’’رحمان ملک کو اپنی کرسی کی فکر ہے‘‘

تفصیلی خبر کچھ یوں ہے۔

کراچی:۔۔۔۔۔وزیر مملکت برائے پورٹس اینڈ شپنگ اور پیپلز پارٹی کے لیاری سے منتخب رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے لیاری سرچ آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے۔ آپریشن لانڈھی ، کورنگی ، عزیز آباد اور عثمان آباد میں بھی ہوتا تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے نبیل گبول نے کہا کہ لیاری میں پیپلز پارٹی کے ووٹروں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ حکومت پر جرائم پیشہ افراد ، قبضہ مافیا اور ڈرگ مافیا کے خلاف آپریشن کے لیے دبائو ہے تو اس کی سزا لیاری کی عوام کو نہیں دینی چاہیئے۔

لیاری امن کیمٹی کیا ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی سے تعلق کیا ہے اس کی کچھ تفصیل یہاںیہاں اور یہاں ملاحظہ کریں ۔یہ تو لیاری امن کمیٹی کا معاملہ ہے خود پیپلز پارٹی نے اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا انتقام جس طرح عوام اور خصوصا سندھ کے عوام سے لیا وہ سب نے دیکھا ۔

ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار پیش خدمت ہیں جس کے مطابق ’’مہاجر قومی موومنٹ ٹارگٹ کلنگ کا زیادہ شکار بنی ہے‘‘

 

 
 

حساس اداروں نے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اعدادوشمار وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے حوالے کردیے ہیں۔مہاجرقومی موومنٹ کے 72اور پی پی کے 12کارکنوں سمیت 2009ءمیں 182جبکہ 2010ءکے ابتدائی 9دنوں میں 36سیاسی کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ۔غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2009ءمیں 486سیاسی کارکنوں کو دہشت گردوں نے قتل کیا ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے مرتب کیے گئے اعدادوشمار میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر واضح تضاد پایا جاتا ہے غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2009ءمیں 486افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تھے جن میں سب سے زیادہ تعداد مہاجر قومی موومنٹ اور پی پی پی کے کارکنوں کی تھی ۔دوسری جانب شہر میں جاری حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ آصف نواز کی سربراہی میں قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی کو حساس اداروں کی جانب سے شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اعدادشمار فراہم کیے گئے جن کے مطابق 2009ءمیں مجموعی طور پر 182افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جن میں اکثریت مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنوں کی تھی ۔اعدادو شمارکے مطابق سال 2009ءمیں مہاجر قومی موومنٹ کے 72کارکنوںکو قتل کردیا گیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے 52‘پی پی پی 12‘اے این پی11‘کالعدم سپاہ صحابہ کے 11‘پی ایم یل ن ‘جمعیت اہلحدیث کے 2‘جماعت اسلامی کے 2‘سنی تحریک کے 3‘لیاری امن کمیٹی کے 2فقہ جعفریہ کے 2پی پی پی (ش ب)کے 2کارکنوں سمیت 8دیگر افراد شامل تھے ۔اسی طرح یکم جنوری 2010ءسے 9جنوری تک صرف 9روز میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 36افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کو فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں برس جنوری 2009ءسے جنوری 2010ءکی 10تاریخ تک ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں متحدہ قومی موومنٹ کے 58کارکنان ہلاک ہوئے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں‘18جنوری کو ضلع شرقی کے علاقے کھوکھرا ہار میں ندیم بیگ‘17اپریل کو گلبرک کے علاقے میں محمد رضوانُ16مئی کو مبینہ ٹاو ¿ن کے علاقیمیں سید عادل‘4جون کو سعود آباد کے علاقے میں خالد انصاری اور 5جون سہراب گوٹھ میں محمد ارشد‘شاہ فیصل کالونی میں اجمل معین اور عوامی کالونی تھانے کے علاقے میں فاروق صدیقی ۔7جون کو عید گاہ کے علاقے میں رضا اللہ قریشی ‘فقیر محمد اور جوہر آباد میں معین رضا ۔20جون کو نبی بخش کے علاقے میں عتیق ۔26جون کو شاہراہ فیصل کے علاقے میں سید منصور علی ۔7جولائی کو سعود آباد کے علاقے میں زبیر احمد ۔8جولائی کو عوامی کالونی کے علاقے میں حاجی جلال ُعثمان ‘عبداللہ ‘سہیل عدنان ۔9جولائی کو نیو کراچی میں بشیر محمد ۔11جولائی کو عید گاہ کے علاقے میں یاسین اور اسٹیل ٹاﺅن کے علاقے میں صادق ۔14جولائی کو نبی بخش کے علاقے میں سراج الدین ‘16جولائی کورنگی میں محمد نعیم ۔18جولائی کو پی آئی بی کالونی میں محمد فیصل ۔27جولائی کو سعید آباد کے علاقے میں یعقوب کالا ‘شاہد اور ہمیش ‘یکم اگست کو کھوکھراپار میں رعنا ریاض الحسن ‘ماڈل کالونی میں راشد ۔5اگست کواقبال مارکیٹ کے علاقے میں عمران علی ‘شاہ لطیف میں رحمان احمد ۔10اگست کو بلدیہ کے علاقے میں رفیع اللہ ‘جوہر آباد میں فراز غوری اور علی رضا۔21اگست کو ناظم آباد کے علاقے میں شباب رضا عابدی ‘25اگست کو شاہ فیصل کالونی میں عتیق اور عجاز بیگ ۔3ستمبر کو ملیر میں نعمان جاوید ۔11ستمبر کو پاکستان بازار کے علاقے میں محمد قیوم ۔17ستمبر کو شاہراہ نورجہاں میں راشد یوسف ۔21نومبر کو چاکیواڑہ میں علی اصغر ‘بغدادی میں فیضان ۔22نومبر کو کلاکوٹ میں خلیل احمد ‘کھارادر میں شاہ نواز ۔30نومبر کو اقبال مارکیٹ میں سید محمد جاوید ‘15دسمبر کو سعود آباد میں عبدالعزیز ۔17دسمبر کو لانڈھی میں عارف الطاف ۔25دسمبر کو سعید آباد میںحیات علی ۔30دسمبر کو ناظم آباد میں طلحہ ۔31دسمبر کو کلاکوٹ میں باسط ۔یکم جنوری 2010ءکو لانڈھی میں عمران احمد ۔شاہ فیصل میں عامر خلیل ۔7جنوری کو کلاکوٹ میں عامر ۔اقبال مارکیٹ میں متین حسین زیدی ‘8جنوری کو کھارادر میں نعیم اور خیرالبشر شامل ہیں۔ حقیقی یکم جون 2009ءکو شاہ فیصل کالونی کے علاقے میںمسلح افراد نے فائرنگ کرکے حقیقی کے کارکن عمان احمد کو ہلاک کردیا‘ 3 جون کو عوامی کالونی میں محمدنوید‘ فراست علی‘ شاہ فیصل کالونی میں یاسین علی‘ کھوکھراپار میںمسماة سیما‘ 4 جون کو لانڈھی میں عدیل‘ عوامی کالونی میں عزیز الرحمن‘ لانڈھی میں نبی قریشی‘ زمان ٹاﺅن میںثناءاللہ‘ 5جون کو بلال کالونی میں محمد ندیم‘ ثاقب ماڈل کالونی میں بابر راشد‘ 7 جون کوجمشید کوارٹر کے علاقے میں سلیم الدین ‘عوامی کالونی میں محمد ندیم‘ کھوکھراپار میں محمد جمیل‘ سعودآباد میں نسیم احمد‘ عوامی کالونی میں زاہد حسین‘ لانڈھی میں شہزاد‘ 8 جون کو لیاقت آباد کے علاقے میں فہیم الدین اور سیف الحق صدیقی‘ لانڈھی میں امیر‘ گلبہار میں عبدالنعیم‘ شریف آباد میں علی عباس‘ 19 جون کو شریف آباد میں رئیس۔20 جون کو سعودآباد میں محمد اصغر‘ 21 جون کو سعودآباد میں ندیم احمد‘ 22جون کو سعودآباد میں عبداللہ‘ 23 جون کو الفلاح میں نوید‘ 24 جون کو سپر مارکیٹ میں سید معروف علی‘ عوامی کالونی میں محمد فاروق‘ 26 جون کو نیو کراچی میں نعیم الدین‘ 27 جون کو زمان ٹاﺅن میں عبدالنعیم‘ 28 جون کو سعودآباد میں محمد جنید‘ کورنگی میں طارق احمد‘ سرجانی ٹاﺅن میں محمد ریاض‘29 جون کو سچل میں آصف ریاض‘ 4 اگست کو لیاقت آباد میں محمد سکندر‘ مومن آباد میں سلامت خان‘ 5 اگست کو سرجانی میں محمد آصف‘ 6 اگست کو نارتھ ناظم آباد میں سید ندیم احمد‘ سعودآباد میں عتیق‘ ملیر سٹی میں سید محمد حیدر‘ پریڈی میں محمد شاہد‘ 7 اگست کو سرجانی میں فضل الحق‘ 10 اگست کو شریف آباد میں محمد عامر‘ 11 اگست کو شاہ فیصل میں محمد آصف‘ پریڈی میں وسیم‘ بلال کالونی میں محمد عرفان‘ 15 اگست کو رضویہ میں عبدالحفیظ‘ 4 نومبر کو لانڈھی میں رحمان‘ محمد فرید‘ بریگیڈ میں اسرار احمد‘ 11دسمبر کو سعودآباد میں محمد نعیم‘ 14 دسمبر کو سعودآباد میں عاصم حسین‘ 30 دسمبر کو شرافی گوٹھ میں سہیل احمد کو قتل کیا گیا جبکہ یکم جنوری 2010ءکو عوامی کالونی میں محمد الیاس‘ سعودآباد میں محمد علی‘ 2 جنوری کو عوامی کالونی میں دانش‘ ناظم آباد میں نصیر‘ لانڈھی میں اختر خان‘ 3 جنوری کو ماڈل کالونی میں اخلاق حسین‘ 4 جنوری کو لانڈھی میں محمد یامین‘ سعودآباد میں رمضان‘ 5 جنوری کو لانڈھی میں عبدالرﺅف‘ عوامی کالونی میں عامر کو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔

 

 

 

Articles

بچوں کا ٹی وی چینل اور ایو ایس ایڈ کی سرمایہ کاری

In پاکستان on جنوری 8, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

ذ۔ر۔جعفری

کیا 18کروڑ پاکستانی مل کر ایک ارب 68کروڑ روپے جمع کرسکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ہم اپنی ذات سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ارب 68 کروڑ روپے کا ہوگا کیا؟ امریکا کے کھلے اور چھپے ناپاک مکروہ عزائم پورے کرنے میں معاون اس کا ادارہ یو ایس ایڈ جو پاکستان میں 1955ءسے سرگرم ہے، اس نے پاکستانی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا ہے۔ اس اشتہار کے مطابق یو ایس ایڈ نے ایسے تمام پاکستانی اور امریکی اداروں سے منصوبے اور تجاویز طلب کیے ہیں جو بچوں کے پروگرام بناسکتے ہیں اور یو ایس ایڈ کو پاکستانی بچوں کے لئے ایک ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے یو ایس ایڈ ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے لے کر 2کروڑ ڈالر تک کا سرمایہ فراہم کرے گا۔ یعنی تقریباً ایک ارب 68کروڑ پاکستانی روپے۔
عقل حیران ہے کہ یہاں بڑے بڑے اعلیٰ ذہن اور وژن رکھنے والے لوگ پورے 18کروڑ عوام کی رہنمائی کیلئے ایک نیوز چینل قائم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے لئے 5سے 10کروڑ روپے نکالنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت ببانگِ دہل صرف پاکستانی بچوں کیلئے ایک ارب 68کروڑ روپے سے ٹی وی چینل قائم کررہی ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ پینٹاگون کے پاس اربوں ڈالر کا بجٹ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اسلامی ممالک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مسلمان عوام کا ذہنی غسل کیا جائے اور رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ آپ کو کیا دکھانا ہے، کیسے دکھاناہے، کیاسوچنے پر مجبورکرناہے، کس طرح کی رائے قائم کراناہے اور کس طرح کا کردار اداکروانا ہے یہ وہ تمام مقاصد ہیں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مددسے حاصل کئے جارہے ہیں۔
امریکی ٹکڑوں یامشروبات پر پلنے والے نام نہاد کالم نویس اور دانشور صبح تا شام پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے صرف اسلام اور دہشت گردی کا تعلق ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کوتمام مسائل کی جڑ اسلام اور لوگوں کا اسلام سے تعلق نظر آتاہے۔ طالبان کے نام پر دہشت گردی کے ہرطرح کے واقعات رونماہورہے ہیں اور ہر واقعے کے بعد لوگوں کے لاشعور میں متواتر ٹی وی مذاکروں کے ذریعے صرف ایک ہی بات بٹھائی جاتی ہے کہ یہ اسلام کے نام لیواﺅں کی کارروائی ہے اوریہ کہ ہمیں ان سے اپنے تعلق کو مکمل ختم کرناہوگا، یعنی ہر اُ س شخص سے جونمازپڑھتا، داڑھی رکھتا یا خلافِ اسلام رویّوں کو رد کرتا یا پھر امریکا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بات کرتا یا اس کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی مذّمت کرتاہے۔
راقم نے یہ بات خاص طورپر نوٹ کی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ہر اس شخص یا تنظیم کو طالبان یادہشت گردوں کا ہمدرد، ساتھی اور معاون قراردیاجاتاہے جو پاکستان میں امریکی مداخلت یا افغانستان میں ہزاروں بے گناہوں کی شہادت کی بات کرتاہے اور ناپاک امریکی عزائم کو موضوعِ بحث بناتاہے۔
جماعتِ اسلامی کے نئے امیر سید منور حسن اس بات کے گواہ اور شاہد ہیں کہ کس طرح پاکستانی میڈیا نے ان کے امیر بننے کے بعد ان کے متواتر انٹریوز شائع اور نشر کیے اور ہر انٹرویو میں ان کو مخصوص سوالات کے ذریعے گھیرنے کی کوششیں کی گئیںاور انٹرویوز کرنے والے سننے اور دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتے رہے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذّمت نہیں کرتی ہے بلکہ ملک میں طالبان کے نام سے دہشت گردی کی کاروائیوں کی ہمدردہے اور امریکا کی بلاوجہ مخالفت کرتی ہے۔ یو ایس ایڈفنڈڈ ایک چینل جس کا سی ای اوبھی یو ایس ایڈکا باقاعدہ ملازم ہواکرتاتھا اس کے ایک سینئراینکرجوکسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے کارکن اور کیپیٹل ازم اور امریکاکے بہت بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے انہوں نے امیر جماعتِ اسلامی سے انٹریو میں اس حدتک اشتعال انگیز سوالات کئے کہ منورحسن کو کہنا پڑا کہ "یہ آپ امریکی ذہن سے سوچ رہے ہیں اور امریکی سوالات پوچھ رہے ہیں”۔ منورحسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جس چینل کو خاص طورپر امریکی امداد کے ذریعے بنایاگیاہے اور جہاں ان تمام لوگوں کونوکری فراہم کی جاتی ہے جو اسلام یا اس کے نام لیواﺅں سے بیزاری رکھتے اور مغرب سے اپنا ناتا جوڑے ہوئے ہوں ۔ توکیا ایسے ٹیلی ویژن امریکی اور مغربی سوچ کی نمائندگی نہیں کریں گے؟
جویو ایس ایڈصرف بچوں کے چینل کےلئے ایک ارب 68کروڑ روپے فراہم کر رہی ہے اس نے 18کروڑ جیتے جاگتے باشعور پاکستانیوں کی ذہن سازی کیلئے اگر 100ارب بھی خرچ کئے ہیں تو یہ تھوڑے ہیں۔ اسی چینل پر اکثروبیشتر مذاکرے نشر ہوتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے لاشعور یہ بات بٹھانا ہے کہ اچھے لوگ صرف وہ ہیں جو صبح کام پر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ اور ملک کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر زبان سے ایک حرف نہیں نکالتے۔ یہ اچھے لوگ نہ صرف کہ اسلام سے واجبی ساتعلق رکھتے ہیں بلکہ اسلامی کے نام لینے والوں یا ملک کی اسلامی اساس پر ضرب لگانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں یا احتجاج کرنے والوں سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ کیونکہ یہ لوگ شلوار قمیض پہنتے، نماز پڑھتے اور داڑھی رکھتے ہیں اور مغرب خاص طورپر امریکا کی جانب سے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جانے پر احتجاج کرتے اور کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں لہٰذا ان میں اور طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے لوگوں کا نہ صرف کہ ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔
ایم کیوایم کی جانب سے بھی میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اور اب اکثر ایسی دینی سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جاتی ہے جو ملک میں دہشت گردی کا ذمہ دار مغرب اور امریکا کو ٹھراتے ہیں۔ یہ تمام چینل کی امریکی یا مغرب مخالف خبر کو چند سیکنڈدیتے ہیں۔ لیکن اسلام کا دہشت گردی سے تعلق جوڑ نے میں ان کا بیشتر وقت گزر جاتا ہے۔
یو ایس ایڈکی جانب سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری نہ صرف کہ پاکستانی معاشرے میں رنگ لارہی ہے بلکہ وہ دن زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا جب اسلام کا نام لینا ایک جرم قرار پائے گا اور عوام میڈیا کے مستقل پراپیگنڈے کے زیرِ اثر پاکستانی عوام سے بات کرنابھی ناممکن ہوجائے گا۔ ابھی پاکستانی عوام کی مستقل طورپر دینی جماعتوں، مدرسوں اور علما کے خلاف ذہن سازی کی جارہی ہے تاکہ وہ ان کو معاشرے کا ناسور سمجھنا شروع ہوجائیں اور دوسرے مرحلے میں عوام اور سرکاری اداروں کو میڈیا کے پراپیگنڈے کے ذریعے اسلام کا نام لینے والی جماعتوں اور مدرسوں کے خلاف کاروائیوں پر اکسایاجائے گا۔ یو ایس ایڈکے فنڈڈ اسی چینل سے چند روز پہلے ڈاکٹر ہود بھا ئے اور ظفر خان مدرسوں اور اسلامی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اور مدرسوں کو دہشت گردی کی نرسریاں قراردیاجارہاتھا۔ یہاں تک کہاگیا کہ یہ مدرسے ہی دراصل اسلامی سیاسی جماعتوں اور دہشت گردوں کے مشترکہ طاقت کے مراکز ہیں اور اگرپاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ان مدرسوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
اگر ملک کے تمام علمائ، مدارس، دینی جماعتیں اور دینی سیاسی جماعتیں ایک ایسے پاکستان کے لیے تیار ہیں جہاں پر صرف اور صرف مغرب کا راج ہوگا اور جبرکے ذریعے اسلامی شعائر کی پابندی سے روکاجائے گا تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں مگر اگر ہم پاکستان اور اسلام کے تعلق کو سمجھتے ہیں اور واقعتا اسلام اور اللہ سے وابستگی رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں مغرب کی یلغار خاص طورپر میڈیا کی یلغار سے کس طرح نمٹناہے۔
اس ملک میں جہاں لوگ دوسروں کی مدد کی خاطر سالانہ سور ارب سے زائد صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور جہاں ایک سچے پاکستانی کی اپیل پرکینسر جیسے ہسپتال کو تعمیر اور کامیابی سے چلنا ممکن بناسکتے ہیں وہاں مغرب کے فنڈڈ چینل اور اخبارات کے مقابلے کیلئے 10 ،20یا 30کروڑ روپے جمع نہیں کئے جاسکتے؟ بات صرف اس کام کی اہمیت کو سمجھنے اور عزم کی ہے۔
یہاں ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جس کاا پنا نیوز چینل، انگریزی اور اردو کا اخبار ،پبلشنگ ہاﺅس اور لکھنے والوں کی ایک معقول تعداد ہو جوکہ نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی میں شائع ہونے والے اسلام مخالف سینکڑوں مضامین کو چیلنج کریں اور ان کے خلاف دلائل کے ساتھ تحریریں لکھیں اور ان تمام اخبارات، رسائل اور چینلز کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرےں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر ان کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کیاجائے۔
مغرب کے خلاف اردوزبان میں بہت سا ایسامواد موجود ہے جس کو انگریزی میں ترجمہ کرکے انٹرنیٹ کے ذریعے اور کتابوں اور رسائل کی شکل میں پاکستان میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے بلکہ مغرب اور دنیابھر میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی بتانا ضروری ہے۔ اس وقت پوری دنیا کا میڈیا یہودیوں اور اسلام دشمنوں کے ہاتھ میں ہے ایسے میں یہ سمجھنا کم فہمی ہے کہ ہم لوگوں کو مغرب کے ناپاک عزائم سے صرف بیانات اور احتجاجی مظاہروں سے آگاہ کر کے ان کی رائے کو مغرب کے ناپاک عزائم کے خلاف ہموار کرلیں گے۔

بشکریہ :فرائیڈے اسپیشل ، کراچی

Articles

پاکستان کے ابلاغی اغوا کا امریکی منصوبہ

In پاکستان,دہشت گردی on جنوری 8, 2010 منجانب ابو سعد Tagged:

:شاہنواز فاروقی

ہماری قومی زندگی میں امریکہ کہاں نہیں ہے! ہماری حکومتیں امریکہ تخلیق کرتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے چہروں پر امریکی ساختہ لکھا ہوا ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں امریکہ کی سیاسی موسیقی پر رقص کرتی ہیں۔ ہمارے دفاع پر امریکہ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے قلب میں امریکی پرچم لہرا رہا ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کے مالیاتی اداروں کے احکامات پر چلتی ہے۔ ہماری داخلہ پالیسی امریکی ترجیحات کے مطابق مرتب ہوتی ہے۔ ہمارے جرنیل اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکی ماہرین ہمارا قومی بجٹ بناتے ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں ہمارے تعلیمی نصاب کا بڑا حصہ مشرف بہ امریکہ ہوچکا ہے۔ ہمارے بہت سے دینی مدارس میں امریکہ کی اصلاحات تاریکی پھیلا رہی ہیں۔ آغا خان بورڈ پر بہت سے لوگوں کو امریکہ کا سایہ نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان پر امریکہ کی مکمل گرفت کا منظرنامہ ہے، مگر امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُس نے پاکستان کے ”ابلاغی اغوا“ کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس منصوبے کا ایک پہلو پاکستان پر امریکی چینلوں کی یلغار ہے۔ پاکستان میں سی این این، فوکس نیوز اور سی این بی سی پہلے ہی موجود تھے مگر پاکستان میں امریکی چینلوں کا اردو روپ بھی ظاہر ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں مواد کی اشاعت و پیشکش پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے معاملے سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے۔ اس معاملے کا لب ِلباب یہ ہے کہ شیریں مزاری نے پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں بلیک واٹر کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، مگر امریکی سفارت کاروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے یہ مضمون شائع ہونے سے رکوا دیا، تاہم جب شیریں مزاری کا یہ مضمون انٹرنیٹ کے ایک بلاگ پر طلوع ہوگیا تو مذکورہ اخبار نے بھی اسے شائع کردیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی ہمارے ابلاغی اغوا کے لیے کس سطح پر اتر کر کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملات یہیں تک محدود نہیں۔
دی نیوز کراچی کی 24 دسمبر کی اشاعت میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں یو ایس ایڈ نے پاکستان میں بچوںکے ٹیلی وژن پروگرام کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ اشتہار کے مطابق ان پروگراموں کا عرصہ چار سال پر محیط ہوگا اور اس پر امریکہ ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو امریکہ پاکستان میں بچوں کے ٹی وی پروگراموں کی تیاری پر تقریباً ایک ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت بچوں کے لیے مقامی امریکی ٹی وی چینل شروع ہوگا یا محض بچوںکے لیے پروگرام تیار کیے جائیں گے؟ یہ امر اشتہار سے پوری طرح واضح نہیں، لیکن اشتہار میں منصوبے کے تین مقاصد واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اشتہار میں منصوبے کا پہلا مقصد بچوں کو زبان کی تشکیل میں مدد دینا، دوسرا مقصد بچوں میں مسائل حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ منصوبے کا تیسرا مقصد بچوں میں ”تنقیدی فکر“ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
منصوبے کے یہ تینوں مقاصد بظاہر سیدھے سادے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ کیا جائے تو اصل حقیقت تک رسائی ہوجاتی ہے۔ زبان بیرونی دنیا سے بچے کے تعلق اور رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ بچے زبان کے وسیلے ہی سے دنیا کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ جیسی ان کی زبان ہوگی ویسی ہی ان کی دنیا بھی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر زبان کا ”ماڈل“ بھی امریکی ہوگا تو بچوں کا زاویہ ¿ نگاہ ابتدا ہی سے ”امریکی“ ہوجائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ زبان کے ذریعے ذہن اور تصور کی ”امریکہ کاری“ ہے۔ زبان ”تعمیر“ کا ذریعہ ہے۔ ”تخلیق“ کا وسیلہ ہے۔ مگر امریکہ پاکستان میں اسے بھی ”تخریب“ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا اچھی بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مسائل کا ”تصور“ کیا پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کی ترجیحات کے حوالے سے مسائل کی ایک فہرست ”اسلامی“ ہے۔ ترجیحات کے اعتبار سے مسائل کی دوسری فہرست ”مغربی“ ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ امریکہ ہمارے بچوں کو مسائل کی اسلامی فہرست کے ذریعے تو تربیت دینے سے رہا۔
بچوں میں تنقیدی فکر کی صلاحیت پیدا کرنا بظاہر بڑی دانش ورانہ بات لگتی ہے، لیکن مغرب اسلام کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اُسے دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں میں تنقیدی فکر پیدا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی بچوں میں اسلامی عقائد و نظریات اور اسلامی تصورات و اقدار کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان پیدا کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہماری نئی نسل کے روحانی، تہذیبی، نفسیاتی و ذہنی اغوا کا منصوبہ ہے جو ہماری ہی سرزمین پر ہمارے ہی لوگوں کی مدد سے بروئے کار آنے والا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
ہمارے یہاں امریکی فکر اور امریکی اقدامات کے حوالے سے ”امریکی سازش“ کی اصطلاح مروج ہے۔ اس اصطلاح کے تحت ہم کہتے ہیں کہ امریکہ ہمارے خلاف فلاں سازش کررہا ہے۔ لیکن سازش ”خفیہ“ ہوتی ہے۔ امریکہ زیربحث اقدام کے حوالے سے جو کچھ کررہا ہے وہ سازش نہیں ہے، ”منصوبہ“ ہے۔ سازش خفیہ ہوتی ہے اور منصوبہ سرعام بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اور امریکہ نے تو اس منصوبے کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا ہے۔ اس سے امریکہ کے اس اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آخر یہ ہماری کیسی ”پاکستانیت“ ہے جو بھارت کے نیوز چینلز کو روکتی ہے مگر امریکہ کے کسی طرح کے چینلز پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
امریکہ کا زیر بحث منصوبہ چار سال پر محیط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے سلسلے میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کررہا ہے اور وہ ایک آدھ سال میں پاکستان سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کا مسئلہ ”اسلامی انتہا پسند“ ہیں۔ لیکن امریکہ کا مذکورہ منصوبہ اسلامی انتہا پسندوں سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ امریکہ ہمارے پورے معاشرے کی تشکیلِ نو چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بچوں تک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں پہلے ہی بچوں کے لیے مغربی چینلوں کی بھرمار ہے۔ ان میں کارٹون نیٹ ورک، ڈزنی، نکلوڈین اور بے بی ٹی وی سرفہرست ہیں۔ ان چینلوں کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں ان چینلوں نے لاکھوں بچوں کو ٹی وی کا قیدی اور ٹی وی کا مریض بنادیا ہے۔ مگر امریکہ کے لیے یہ کافی نہیں ہے، اور وہ ہمارے بچوں کے لیے مقامی ابلاغی قتل گاہیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جس طرح جیکب آباد اور پسنی کے ہوائی اڈوں پر امریکی قبضے کو قبول کرلیا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ابلاغی اغوا کے امریکی منصوبے کو بھی قبول کیے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے یہاں روسی ایجنٹ کی اصطلاح رائج تھی اور ان ایجنٹوں کی شناخت واضح تھی۔ بھارتی ایجنٹوں کی شناخت بھی ہمارے یہاں واضح رہی ہے۔ مگر امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کو تو ہم امریکی ایجنٹ تک کہنے اور ان کی شناخت متعین کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل ، کراچی

Articles

مسعود جنجوعہ شہید کردیے گئے

In پاکستان on جنوری 7, 2010 منجانب ابو سعد Tagged: , , ,

معروف کالم نویس حامد میر نے روزنامہ جنگ میں شائع اپنے آج کے کالم (میڈیا کا اصل امتحان) میں انکشاف کیا ہے کہ ہمارے اپنے ملک کی خفیہ (دہشت گرد) اداروں نے آمنہ مسعود کے شوہر مسعود جنجوعہ کو دوران حراست شہید کردیا ہے( انا للہ و انا الیہِ راجعون) اس کالم میں یہ بھی کہا گیا ہے اس وقت این آر او سے زیادہ جس مسئلے پر عوام کو عدلیہ کا ساتھ دینا چاہیے وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔ ان لاپتا افراد میں اکثر بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کو دہشت گردی کی امریکی جنگ کے نام پاکستان کی خفیہ اداروں نے اُٹھایا ہے۔ آئیے سب مل کر عدلیہ کا ساتھ دے کر لاقانون خفیہ اداروں کو شکست دے کر اس ملک میں قانونی کی بالادستی کے کار خیر میں حصہ ڈالیں۔

 کالم ملاحظہ کریں۔

 میڈیا کا اصل امتحان ….قلم کمان …حامد میر

 سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال نے بالکل درست کہا کہ عدلیہ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں البتہ اگر لاپتہ افراد جیسے مسائل حل نہ ہوئے تو جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے یہ ریمارکس لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ این آر او سے بڑا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس راجہ فیاض احمد اور جسٹس سائر علی پر مشتمل تین رکنی بنچ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔
ان جج صاحبان کے ریمارکس پر بہت غور کی ضرورت ہے۔ میں بھی ذاتی طور پر لاپتہ افراد کے مقدمے کو این آر او سے بڑا مقدمہ سمجھا ہوں کیونکہ دراصل یہی وہ مقدمہ تھا جس کی وجہ سے خفیہ ادارے جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ناراض ہوئے اور انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے کان بھرنے شروع کئے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی تھی کیونکہ وہ عدالت کو نہ تو لاپتہ افراد کے متعلق مکمل تفصیلات فراہم کرتے تھے اور جب یہ پتہ چل جاتا کہ کوئی لاپتہ شخص واقعی کسی مقدمے کے بغیر ان کی تحویل میں ہے اور عدالت اس کی رہائی کا حکم دیتی تو خفیہ ادارے اسے رہا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری جن لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق بلوچستان سے تھا اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز اپنے معاملات میں سپریم کورٹ کی ”مداخلت“ سے قطعاً خوش نہ تھے۔ انہوں نے خود ذاتی طور پر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے اس اہم مقدمے کی سماعت جاری رکھی تو پھر ملٹری انٹیلی جنس نے دیگر خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور انہیں پرویز مشرف کے اقتدار کے لئے ایک خطرہ قرار دینا شروع کردیا۔ اسی مہم کے نتیجے میں 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی اور ناکامی پر انہیں معزول کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 20جولائی 2007ء کو اپنے ہی چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر بحال کردیا تو چیف جسٹس نے واپسی کے فوراً بعد لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع کردی۔
20جولائی2007ء کے بعد پاکستانی سیاست میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کے نام پر ایک جعلی مفاہمت کی۔ اس این آر او کا مقصد وطن عزیز میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا نہیں بلکہ جسٹس افتخار کے خلاف محاذ میں پیپلزپارٹی کو ساتھ ملانا تھا۔ 5/اکتوبر 2007ء کو این آر او جاری ہوا اور 17/اکتوبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آگئیں۔ دوسری طرف لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت جاری تھی، خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی پریشانیاں پہلے سے زیادہ بڑھ چکی تھیں کیونکہ عدالت جن افراد کی بازیابی کا حکم دے رہی تھی ان میں سے بعض افراد ان اداروں کی تحویل میں تشدد سے مارے جاچکے تھے۔ خفیہ اداروں کے سربراہوں کو خدشہ تھا کہ اگر عدالت کو بتا دیا گیا کہ بعض لاپتہ افراد ان کی حراست میں جاں بحق ہوچکے ہیں تو چیف جسٹس ان اداروں کے افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ ملک قیوم ان دنوں اٹارنی جنرل تھے۔ انہوں نے خود کئی مرتبہ کوشش کی کہ خفیہ ادارے کم از کم آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر اور چند لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو عدالت میں پیش کردیں تاکہ یہ تاثر دور ہوکہ حکومت سپریم کورٹ سے تعاون نہیں کررہی۔ ملک قیوم نے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کے ساتھ مل کر دیواروں کے ساتھ بہت ٹکریں ماریں لیکن کسی کو رحم نہ آیا۔ آخر کار ایک دن ملک قیوم کو ایک طاقتور خفیہ ادارے کے ایک طاقتور افسر نے بلاکر کہا کہ جاؤ اور جاکر آمنہ مسعود جنجوعہ کو بتادو کہ اس کا شوہر دنیا میں نہیں رہا۔ یہ سن کر ملک قیوم کانپ گئے اور انہوں نے مذکورہ افسر سے کہا کہ حضور والا یہ بات مجھے تحریری طور پر لکھ کر دے دیں کیونکہ آمنہ مسعود جنجوعہ مجھ سے ثبوت مانگے گی اور اپنے شوہر کی لاش مانگے گی میں یہ سب کہاں سے لاؤں گا؟ طاقتور افسر نے ملک قیوم کی التجا کو نظر انداز کردیا لہٰذا ملک صاحب خاموش ہوگئے۔
ذرا یاد کیجئے! 20جولائی کے بعد سپریم کورٹ نے ایک باوردی صدر کو دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا تھا البتہ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت جاری رکھی۔ 2نومبر 2007ء کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وارننگ دی تھی کہ اگر عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر خفیہ اداروں کے سربراہوں کو عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ اگلے دن 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرکے چیف جسٹس اور انکے ساتھیوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظربند کردیا گا۔ خاکسار نے یہ تمام تفصیل محض یہ ثابت کرنے کیلئے بیان کی ہے کہ 3نومبر 2007ء کو جمہوریت کا خاتمہ لاپتہ افراد کے مقدمے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس دن معزول ہونیوالے جج صاحبان 16 مارچ 2009ء کو ایک عوامی لانگ مارچ کے نتیجے میں بحال ہوئے۔ بحالی کے بعد ان ججوں نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع کردی ہے لیکن خفیہ اداروں کے رویّے میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ان خفیہ اداروں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ پاکستان بدل چکا ہے۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ معزول جج صاحبان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بحال کروائے ہیں لہٰذا اس مہربانی کی وجہ سے سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے مقدمے میں نرمی اختیار کرے گی۔ جسٹس جاوید اقبال کے ریمارکس کو خفیہ ادارے اپنے لئے وارننگ سمجھ لیں تو اچھا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ منتخب حکومت ان خفیہ اداروں کے سامنے بدستور بے بس ہے۔ 30دسمبر کو اس ملک کے چار صوبوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ گوادر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک مشترکہ اپیل بھی جاری کرچکے ہیں لیکن خود کو سویلیں حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھنے والے چند مغرور انسانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور شاید اسی لئے جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ جمہوریت کو عدلیہ سے نہیں بلکہ لاپتہ افراد جیسے مسائل سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے طوفانی لہروں والے ایک خطرناک دریا کو اپنے الفاظ کے کوزے میں بند کردیا ہے۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہ ہم سب کا امتحان ہے۔ ہم سب این آر او کیس میں اچھل اچھل کر عدلیہ کی حمایت کا اعلان کرتے رہے ہیں کیونکہ مقابلے پر چند کرپٹ لیکن کمزور سیاست دان کھڑے ہوتے ہیں۔ لاپتہ افراد کا مقدمہ ہمارا اصل امتحان ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا مقابلہ بہت مضبوط خفیہ اداروں سے ہے اور اسی لئے جج صاحبان اسے این آر او سے بڑا مقدمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس امتحان میں پورا اتر کر ہم چند کرپٹ سیاست دانوں کی طرف سے عدلیہ اور میڈیا پر جمہوریت کے خلاف سازش کرنے کے الزام کو واپس ان کے منہ پر مار سکتے ہیں۔